Maktaba Wahhabi

79 - 117
’’إنَّ الْحَقَّ المُطْلَق لِلرَّجُلِ فِيْ أنْ یُطَلِّقَ امْرَأتَه هَذَا الْحَقُّ الَّذِيْ یَبْدُوْ غَیْرُ عَادِلٍ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الْمَرْأةِ‘‘ [1] ’’بنسبت عورت کے آدمی کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مطلق حق مبنی بر انصاف معلوم نہیں ہوتا۔‘‘ نیزوہ کہتی ہیں کہ اب زمانے کے حالات بدل چکے ہیں، لہٰذا پردہ باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں ۔ ’’وَلَمَّا ألْغَی الرَّقُّ،وَتَغَیَّرَتْ قِیَمُ الْعَالَمُ، لَمْ یَعُدْ لِلنَّقَابِ سَبَبٌ لِلْوُجُوْدِ. ‘‘[2] ایسے ہی خیالات کا اظہار مشرقِ وسطیٰ میں ہر جگہ اور خاص طورپر ترکی میں بھی ہورہا تھا۔ ترکی سماجی اور تعلیمی اصلاحات کے معاملے میں مصر کے متوازی راستے پر ہی رواں دواں تھا۔ دونوں معاشروں کے دانشور ایک جیسے خیالات رکھتے تھے اور تبادلہ خیالات کرتے رہتے تھے۔ جن دہائیوں میں طہطاوی مبارک اور محمد عبدہ عورتوں، تعلیم اور اصلاح کے بارے میں اپنے خیالات پیش کررہے تھے، اسی دوران نامق کمال (متوفیٰ1888ء) نے ترکی میں عورتوں کی تعلیم کا علم بلند کررکھا تھا۔ شمس الدین (متوفیٰ1904ء) نے 1880 ء میں ایک کتاب’ کدلینار‘ (Kadlinar یعنی ’عورتیں‘) شائع کی۔ اس میں شمس الدین نے عورتوں کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور کثرت ازواج کے معاملے کی اِصلاح کی وکالت کی۔ ان کی دلیل تھی کہ اگرچہ قرآن اس کی اجازت دیتا ہے ،لیکن اسے سراہتا نہیں ہے۔ کثرت ازواج کا معاملہ عمومی نہیں ہے یعنی عام حالات میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، بلکہ یہ معاملہ خصوصی حالات کے ساتھ ہے۔ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے ثبوت میں آیات کا حوالہ بھی دیا اورتعدد ازواج کی اجازت پر مبنی قرآن کی تشریح کا انکار کر دیا۔[3] ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ (متوفیٰ1999ء) لکھتے ہیں: ’’1952 کے انقلاب کے بعد مصر کا جو دستور مرتب ہوا، اس میں بھی عورت کو مرد کے برابر حقوق دیے گئے۔ مصر اور اس کے تتبع میں ترکی اور پھر ایران نے بھی کامل طور پر مغربی معاشرت اختیار کرلی۔ شام و عراق بھی مغرب کے گہرے ذہنی و اخلاقی اور معاشرتی اثرات کی جولان گاہ ہیں۔ روز بروز عام معاشرہ سے دین کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ عورتوں میں آزادی کا رجحان، اطوار زندگی میں مغرب کی نقالی اور حجاب سے بیزاری، کلچرل پروگرام، آزادانہ تفریحی مشاغل، مردوں عورتوں کا اختلاط روز افزوں ہے۔ مخلوط تعلیم کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔‘‘ [4] تیونس بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ تیونس کی آزادی کے بعد تین ہی سالوں میں آزادئ نسواں نے جو رنگ اختیار کیا، اس کے بارے میں ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ نے پیرس کے ایک اخبار کی رپورٹ نقل کی ہے کہ جس کی رو
Flag Counter