1914ء میں خواتین کے اندر مغربی اندازِ زندگی پیدا کرنے کے لئے ’’ اَلاتِّحَادُ النِّسَائِيْ التَّهْذِیْبِيْ‘‘ کی بنیاد رکھی اور اسی مقصد کے لئے ایک دوسری انجمن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ ان تنظیموں کا مقصد ادب و ثقافت کے خوش نما نعروں کے پردے میں مصری خواتین کو اسلام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا تھا۔1919ء میں خواتین کی ایک اجتماعی ریلی منظم کرنے کے بعد ہدیٰ شعراوی وفد پارٹی کی خواتین شاخ’’لَجْنَةُ الْوَفْدِ الْـمَرْکَزِیة لِلسَّیِدَاتِ‘‘ (خواتین کے لئے مرکزی وفد کی کمیٹی) کی مرکزی صدر مقرر کردی گئیں۔1923ء میں آزادی کے حصول کے بعد ہدیٰ شعراوی نے ’’الاتحاد النسائي المصري‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس کی صدر مقرر ہوکر مصر میں تحریک ِنسواں کی بھرپور قیادت کی۔ اسی سال روم کی ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس آئیں تو ایک سیاسی مظاہرے میں شرکت کرتے ہوئے انہوں نے پہلی مرتبہ عوام کے سامنے چہرے کا نقاب نوچ کر پھینک دیا۔ اس کے بعد بے حجابی ان کا شعار بن گئی۔ [1] اُنہوں نے 1925ء میں فرانسیسی زبان میں ایک ماہنامہ (Egyptienne) جاری کیا اور 1937ء میں عربی زبان میں ماہنامہ ’’المصریۃ ‘‘ کا بھی آغاز کردیا۔ ان دونوں رسالوں نے تحریک ِ آزادی نسواں کے افکار و نظریات کی خوب اشاعت کی اور پردے سے متعلقہ اسلام کے روایتی تصورات پر حملے کئے۔[2] مصری خواتین کی کثیر تعداد نے ان کی پیروی کی۔ مصر میں اگرچہ پردہ ختم ہونے کے بارے میں بڑی دیر سے بحث چھڑی ہوئی تھی، لیکن ان تجدد پسندوں کی کوششیں بار آور نہیں ہوتی تھیں۔ مادام کی اس جرأت سے عورتوں میں بے باکی آگئی اور رفتہ رفتہ پردہ ختم ہوتا گیا۔ مصر میں حقوقِ نسواں کی فکر کو تقویت دینے والی ڈاکٹر منیر قاضی بھی ہیں۔انہوں نے قاسم امین کی طرح آیاتِ قرآنی کی تاویل کی۔ قرآن کی اس آیت:﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ ﴾[3] سے استدلال کیا کہ عورت بھی مرد کی طرح سیاست میں حصہ لینے کی اہل ہے، نیز مردوں کی طرح وہ بھی حاکم وقت کی بیعت کرسکتی ہے۔[4] ڈاکٹر منیر قاضی کی طرح عقیلہ احمد حسین بھی اپنے مضمون میں پردہ، طلاق وغیرہ کے بارے میں اپنے پیشروؤں کی ہم نوا نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقِ طلاق مرد کوتفویض کرنا عورت پر ظلم اور زیادتی ہے۔ وہ کہتی ہیں: |