قاسم امین کی دونوں کتابیں مصر میں واضح سماجی تبدیلی اور فکری ہلچل کے وقت شائع ہوئیں اور شدید، تندوتیز بحث اور تنقید کا سبب بنیں۔ ان کتابوں کی اشاعت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مخالفت کی شدت کی وجہ یہ تھی کہ قاسم امین کی تجاویزکی بنیاد انتہا پسندی پر مبنی تھی۔ امین مصری حقوقِ نسواں میں جدت کی طَرَح ڈالنے والوں میں سے ہیں۔وہ معاشرتی ثقافت میں بنیادی تبدیلیوں کو مصری قوم اور بالعموم مسلمان ممالک کے لئے لازمی قرار دیتے ہیں۔ ان کی کتاب کا مرکزی نکتہ عمومی ثقافت اور عورتوں کے کردار کی تبدیلی،خصوصاً پردے کی مخالفت ہے۔ [1] قاسم امین کے مؤیدین میں احمد لطفی السید (متوفیٰ 1963ء) ( تجدد پسند سیاست دان ،صحافی اور ’الجامعة القاهرة مصر‘ کے پہلے ڈائریکٹر) کا نام سرفہرست ہے۔ احمد لطفی السید نے قاسم امین کے خیالات کی تائید کی اور عورت کی بے باک آزادی کا پرچار کیا۔ ابھی قاسم امین کی کتابوں کے بارے میں بحث جاری تھی کہ ملک حفنی ناصف (متوفیٰ 1918ء) [2]نے حقوقِ نسواں کی حمایت میں تحریر و تقریر کا آغاز کردیا اور قاسم امین کی تحریک کو آگے بڑھایا۔ ان کے مضامین کے مجموعے ’’النِّسَائیات ‘‘ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے نظریات میں بہر حال قاسم کی طرح متشدد نہیں۔ اُنہوں نے عورت کی تعلیم و تربیت اور جائز آزادی کے لئے بڑا کام کیا لیکن وہ اپنے بعض نظریات میں بڑے معتدل رہے۔ وہ حجاب کو پسند کرتے ہیں اور آزادانہ اختلاط اور رقص و سرود کی محفلوں کے حق میں قطعاً نہیں۔ 1911ء میں ملک حفنی ناصف نے عورتوں کی طرف سے مجلس مقننہ میں دس مطالبات پیش کئے، جس میں کہا گیا کہ عورتوں کو مردوں کے مساوی تعلیمی سہولتیں مہیا کی جائیں ،نیزنکاح و طلاق کے قوانین میں بھی ضروری اصلاحات کی جائیں۔ اگرچہ ان کی یہ تجاویز اس وقت مسترد کردی گئیں، لیکن اُنہوں نے اس ضمن میں اپنی مساعی کو جاری رکھا اور ان تجاویز کوبعد میں آنے والوں نے بنیاد بنایا۔ مصری مفکرین میں سے سلامہ موسیٰ(متوفیٰ 1958ء) نے بھی عورت کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ وہ مصری عورت کو یورپی عورت کی طرح نام نہاد آزادی کی نعمت سے مالا مال دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ایسی تعلیم کے حامی تھے جس میں دین کا عنصر شامل نہ ہو۔ قاسم امین کی طرح وہ بھی حجاب کے مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ حجاب سے آنے والی نسلوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک حفنی ناصف کے بعد تحریک ِنسواں کی باگ دوڑ ایک انقلابی عورت مادام ہدیٰ شعراوی (متوفیٰ1949ء) کے ہاتھ میں آئی۔ ان کے والد اور شوہر حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز تھے جس کی وجہ سے ہر طبقے تک انہیں رسائی حاصل ہوئی۔ہدیٰ شعراوی نے 1909ء میں قاہرہ یونیورسٹی میں خواتین کے لئے لیکچرز کا اہتمام کیا اور |