کتاب ’’حقوق النساء في الإسلام ‘‘ میں عورتوں کے پردے کے معاملے میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی موضوعِ بحث بنایا۔ سید رشید رضا نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا۔ سید رشید رضا نے عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور ان کی تعلیم و تدریس کا خاص اہتمام کیا تاکہ یہ طبقہ معاشرہ میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکے۔ [1] سید رشید رضا کے بعد آزادئ نسواں کی تحریک کی باگ ڈور قاسم امین صاحب کے ہاتھ میں آئی۔ قاسم امین صاحب نے عورت کے حقوق کی بازیابی اور اس کی آزادی کے حصول کے لیے منظم تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اسی بنا پر ان کا نام ’’مُحرِّر الْمَرْأةِ‘‘ (عورت کو آزادی دلوانے والا) پڑ گیا۔ [2]فرانس کا فارغ التحصیل یہ شخص اسلامی اقدار اور روایات سے بیزار نظر آتا تھا۔ وہ مصری عورت کو یورپی عورت کے رنگ میں رنگنا چاہتے تھے، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار اپنی دو کتابوں’’ تحریر المرأة ‘‘ اور’’ المرأة الجدیدة ‘‘ میں کیا ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کی حمایت میں مصری رائے عامہ کو ہموار کیا۔ ’’تحریر المرأة ‘‘ میں انہوں نے چار مسائل: حجاب، زندگی کے جملہ معاملات میں عورت کی شرکت، تعدد ازواج اور طلاق پر طبع آزمائی کی ہے اور جدت کو اسلام کا مسلک ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ عورت کے معاملے میں روایتی اسلامی فکر کے ناقد ہیں۔ حجاب کے ضمن میں ان کا قول ہے کہ ’’ قرآنِ حکیم میں وارد حجاب کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لئے تھا۔‘‘ [3] ان کے خیال میں پردہ مسلمانوں نے دوسری اقوام کے اختلاط سے اختیار کیا تھا، جسے بعد میں دین سمجھ لیا گیا۔ وہ پردہ کو صحت کے لئے مضر کہتے ہے۔ اسی طرح تعدد ِازواج کے بھی مخالف ہیں اور انہوں نے اس معاملے میں اَعدائے دین کا سا موقف اختیار کیا ہے۔ طلاق کے معاملے میں کہتے ہیں کہ عورت کو بھی حق طلاق ملنا چاہئے۔ ان کے خیالات اس بات پر دلیل ہیں کہ انہوں نے تحریک ِآزادئ نسواں کے مقاصد کو بہت تقویت پہنچائی ہے۔ ’’المرأة الجدیدة‘‘ میں انہوں نے تمام مسلمات و عقائد کا انکار کردیا خواہ وہ دین کے ذریعے انسان کو ملے ہوں یا کسی اور ذریعے سے۔ انہوں نے علمی استدلال کی آڑ میں عورت کو اباحیت، دینی قیود سے آزادی اور معاشرہ کی تمام روایات و آداب کے خلاف بغاوت پر اُکسایا، اور دل کھول کر مغرب کی تقلید کی دعوت دی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ مسلمانوں کے انحطاط کا اصل سبب شرعی احکام کی پابندی ہے۔ [4]وہ ماضی پر فخر کو ذلت و عبودیت اور بے چارگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ |