نہیں بلکہ وہ خرابیاں اور غلط تعبیریں ہیں جو وقت کے ساتھ اسلام میں در آئی ہیں۔ یہ ضوابط، دوسرے ’پسماندہ‘ اور’گھٹیا‘ رسم و رواج کی طرح کثیر ازواج اور طلاق سے متعلق ہیں، جنہوں نے اقوامِ اسلام کو افسوسناک جہالت کی حالت میں گرا دیا ہے۔ بحیثیت مجموعی اسلامی قوم کی بیداری کا انحصار اسلام کے بنیادی اُصولوں کی طرف مراجعت میں ہے۔ ایسی مراجعت سے یہ عیاں ہوجائے گا کہ ’طلاق‘ کثرت ا زواج اور غلامی جیسے معاملات اسلام کے بنیادی اُصولوں میں سے نہیں ہیں۔ مفتی عبدہ کی دلیل تھی کہ مثال کے طور پر کثرت ازواج کی اجازت اس وقت کے حالات کی وجہ سے دی گئی تھی، حالانکہ قرآنی نصب العین واضح طور پر یک زوجیت کی طرف مائل ہے۔ قرآن کے اصل منشا کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ضرررساں رسم و رواج کی درستگی کے لئے قانونی اصلاحات سمیت دیگر اصلاحات بھی عمل میں لائی جائیں۔‘‘ [1] اپنے عہد کے دوسرے سیکولر دانشوروں اور مصلحوں کے برخلاف،مفتی عبدہ مذہبی فکر پر بہتر دسترس رکھتے تھے، جدیدیت کے معاملے کو ان اصلاحات میں پیش کرسکتے تھے، جو ’اصل‘ اسلام سے متصادم ہونے والی اصلاح کی بجائے اس سے ہم آہنگی کی نمائندہ ہوں۔ اسی لئے ان کے تصورات نے دوسرے دانشوروں کے لئے اسلام اور جدیدیت کے معاملے کو سند کے ساتھ پیش کیا، لیکن خود عبدہ، سرکردہ جدت پسند سیاست دانوں اور مصلحوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور اسی گروہ میں ان کا شمار ہوتا تھا، لیکن وہ قوم کو قرآن سے حل تلاش کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ [2] اگرچہ مصر میں1870ء کی دہائی تک ’’سکول برائے حکیمہ‘‘ ریاستی سرپرستی میں چلنے والا عورتوں کی تعلیم کا واحد ادارہ تھا لیکن بالائی طبقے کی خواتین میں یورپی مضامین کا مطالبہ رواج پاچکا تھا۔ محمد علی کی بیٹیاں یورپی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عربی اور مذہب کی روایتی تعلیم بھی حاصل کرتی تھیں۔ بالائی طبقے کے گھرانوں نے یورپی علوم اور مذہبی علوم کی اس ترکیب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا، تاہم بیٹیوں کے لئے مرد اساتذہ ملازم رکھنا عام رواج نہ بن سکا۔ [3] محمد عبدہ کے بعد ان کے شاگرد سید رشید رضا (متوفیٰ 1935ء) نے اپنی زبان و قلم کو اصلاحِ احوال کے لئے وقف کردیا۔ سید رشید رضا نے مسلمان معاشروں میں عورتوں کے حالات زندگی میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں لکھا۔ انہوں نے بالائی طبقے میں ہر جگہ یورپی تہذیب کی نقالی کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے اپنی |