Maktaba Wahhabi

74 - 117
اس کے بعد رفاعہ طہطاوی (متوفیٰ1873ء) نے عورتوں کی تعلیم کے لئے آواز بلند کی ۔ وہ الازہر کے تعلیم یافتہ اور پیرس جانے والے تعلیمی مشن کے رکن تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ عورتوں کو وہی تعلیم دی جائے جو مردوں کو دی جاتی ہے۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ طاقتور قوموں یعنی یورپی قوموں کے تجربات کا یہی نتیجہ ہے، لیکن محمد علی اور رفاعہ کی کوششیں زیادہ بارآور نہ ہوسکیں۔ اُنیسویں صدی کے نصف آخر میں یہ تحریک مصر کے بعض دیگر مصلحین نے آگے بڑھائی۔ سید جمال الدین افغانی (متوفیٰ1897ء) نے جو عالم اسلام کے اتحاد اور ان کی ترقی وخوشحالی کے بہت بڑے داعی تھے، عورتوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دی۔ اور اس گروہ کی مخالفت کی جو اسلام پر عہد ِحاضر کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے کا الزام لگاتا تھا۔ اُنہوں نے تقریر و تحریر سے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ اسلام بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کا ساتھ دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے مسلمانوں کے جذبہ غیرت و خودداری کو بھی بیدار کیا اور کہا کہ وہ غیر ملکی استعمار کے پنجوں سے آزاد ہوں۔ سید جمال الدین(متوفیٰ1897ء) کے بعد ان کے شاگرد محمد عبدہ(متوفیٰ 1905ء) نے ان کے اصلاحی پروگرام کوجاری رکھا اور مسلمانوں کو تحصیل علم کے لئے رغبت دلائی۔ اور کہا کہ ان کی پستی اور اغیار کی بالادستی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ علم سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر ہم ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی جائے اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ مزید برآں وہ لکھتے ہیں: ’’جو بھی یہ جانتا ہے کہ اسلام سے قبل تمام قومیں مرد کو ترجیح دیتی تھیں اور عورت کو محض شے اور مرد کے لئے ایک کھلونا سمجھتی تھیں اور کس طرح کچھ مذاہب نے مرد کو اوّلیت دی، صرف اس لئے کہ وہ ایک مرد ہے اور عورت ایک عورت۔ اور کیسے کچھ لوگ عورت کو مذہبی ذمہ داری کے لئے نااہل اور غیر قانونی اور مذہبی روح سے تہی جانتے تھے...وہ قوموں کے عقائد اور عورتوں سے ان کے برتاؤ میں اس اسلامی اصلاح کی صحیح قدروقیمت کو سراہ سکتاہے۔ اس کے علاوہ اس پر یہ بھی واضح ہو کہ یورپ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ سب سے پہلے اُنہوں نے عورت کو عزت اور برابری عطا کی، اس سلسلے میں اسلام ان سے مقدم تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اب تک کے ان کے قوانین اور مذہبی روایات مرد کو عورت سے بلند درجہ دیتی ہیں۔ یقیناً عورتوں کی تعلیم و تربیت، اور اُنہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے ضمن میں مسلمان غلطی پر تھے۔‘‘ [1] اورمفتی عبدہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اپنے مذہب کی دکھائی راہ پر چلنے میں ناکام رہے ہیں، بلکہ اس کے خلاف ایک دلیل بن چکے ہیں۔عبدہ کی رائے تھی کہ عورتوں کو منفی طور پرمتاثرکرنے والے ضوابط کا سرچشمہ اسلام
Flag Counter