Maktaba Wahhabi

73 - 117
کے انقلاب کے بعد وہاں کے حالات ایک بار پھر بدل گئے۔[1] مصر تو خصوصاً جغرافیائی محل وقوع اور بعض دوسرے وجوہ واَسباب کی بنا پر تجدد کے اس سیلاب سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ حتیٰ کہ بعض اہل فکرنے یہاں تک کہہ دیا : ’’مصر کو مشرق کا ایک حصہ اور مصری فکر کو ہندوستان یا چین کی طرح مشرقی فکر کہنا ہی نادانی ہے۔‘‘ [2] مغربیت سے مرعوب ایک مصری مفکر نے یہ بھی کہہ دیا : ’’ أنا کافرٌ بالشرقِ ومؤمنٌ بالْغَربِ. ‘‘[3] مصر میں آزادئ نسواں کے تصور کو خوب پذیرائی ملی اور عورت کی آزادی اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لئے ملک کے مختلف گوشوں سے آوازیں بلند ہوئیں۔ مصر کاوہ طبقہ جو مغرب کی مادی ترقیوں اوراس کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب تھا، یہ سمجھنے لگا کہ معاشرہ صرف اسی صورت میں صحیح خطوط پر چل سکتا ہے کہ مصری عورت یورپی عورت کے ہم پلہ بنے اور اسے بھی وہی حقوق حاصل ہوں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ مصری معاشرہ میں ان بے باکانہ افکار وخیالات کا ردّعمل ہوا اور مسلمانوں میں سے ایک دوسرے فریق نے عورت کی بے لگام آزادی کو ناپسند کیا اور ایسی کوششوں کو اِلحاد اور لادینیت کا نتیجہ قرار دیا۔ ان دونوں نظریات کے حامل اہل علم حضرات نے اپنے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے کتب تالیف کیں اور دینی، ادبی اور علمی رسائل میں بھی یہ بحث ہوتی رہی۔ مصر میں جب محمد علی(متوفیٰ 1849ء)1805ء میں برسراقتدار آیا تو انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں کو مغربی طرز پر منظم کیا۔ انہوں نے غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کیں جس سے مغربی اثرات مصر میں شدت کے ساتھ داخل ہوئے۔ محمد علی نے عورتوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دی اور دیگر معاشرتی اصلاحات کیں۔ وہ چالیس سال تک اقتدار میں رہے۔ محمد علی مصر کو خود مختار بنانا چاہتے تھے۔ اس غرض سے انہوں نے اپنی فوج کو جدید خطوط پر ترقی دی اور محاصل میں اضافے کے لئے اقدامات کئے۔ انہوں نے زرعی، انتظامی اور تعلیمی اصلاحات متعارف کروائیں اور صنعتوں کے قیام کے لئے کوشش کی۔ ان شعبوں میں ان کے اقدامات نے ایسی معاشی، فکری، ثقافتی اور تعلیمی تبدیلیوں کو فروغ دیا جو عورتوں کے لئے اہم تھیں۔ مغرب کی معاشی چیرہ دستیوں، شعبوں کی مغربی تنظیم، غیر ملکی ماہرین اور محمد علی شاہ کی پالیسیوں کے ابتدائی اثرات نے عورتوں کے طرزِزندگی پر گہرے اَثرات مرتب کئے۔[4]
Flag Counter