ترکی میں حکمران طبقہ اور جدید تعلیم یافتہ لوگ سیکولرازم کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ چند سال پہلے ترکی کی چند طالبات نے اپنے تعلیمی اداروں میں سرڈھانپنے کی اجازت مانگی۔ معاملہ بڑھتے بڑھتے عدالت تک پہنچا، وزیراعظم نے کہہ دیا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ڈھانپنا چاہتی ہیں تو ڈھانپ لیں مگر صدر نے کہا کہ ہمارا سیکولر دستور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ ایک مذہبی علامت ہے۔ [1] لادین ریاست کے دعوے داروں کی لادینی حس اتنی تیز ہوتی ہے کہ سرڈھانپنا وہ ایک مذہبی علامت قرار دیتے ہیں، لہٰذا وہ ان کے نزدیک یہ عمل ان کے سیکولر نظریات کے مخالف پڑ جاتا ہے اور وہ دہائی دینا شروع کردیتے ہیں۔ صرف ترکی کیا، ہر جگہ آج کی غالب مغربی تہذیب نے زوال پذیر مسلمانوں کو اپنی تقلید پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں آزادئ نسواں کی تحریکیں پھل پھول رہی ہیں۔ ان تحریکوں کا ہدفِ اوّل اسلامی معاشرہ سے ستروحجاب کے شرعی آداب کو ختم کرنا ہے۔ [2] انسانی آزاد روی کے دور میں پردے پر پابندیاں لگانا مسلم دنیا کے بارے میں مغربی تعصب کا آئینہ دار ہے اور یہی تعصب مغرب اور مسلم دنیا میں ثقافتی اختلافات کے فروغ کی بنیاد بنا ہے۔مصر میں خصوصی طور پر تحریک ِنسواں نے خدیو اسماعیل پاشا کے زمانے ( متوفیٰ1879ء) میں زور پکڑا اور عورتوں کے لئے جدید طرز کے سکول کھلنے لگے۔ خدیو اسماعیل کا کہنا تھا کہ سکول ہر نوع کی ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اس نے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ایک ایجوکیشنل کمیٹی قائم کی، جس کو اس نے سکولوں کی کتابوں کو مغرب زدہ بنانے اور اُنہیں ریاستی نظام میں شامل کرنے کی ہدایت کی۔ علی مبارک (متوفیٰ1893ء) بھی اس کمیٹی کے رکن تھے جنہوں نے فرانس میں تعلیم حاصل کی تھی اور وہ عورتوں کی تعلیم کی خاص طور پر حمایت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عورتیں آخری حد تک علم کے حصول میں مشغول ہوں۔ اگرچہ وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ ان کا پہلا فرض بچوں کی دیکھ بھال اور شوہروں کی رفاقت ہے۔ ایجوکیشنل کمیٹی نے طہطاوی کو سکول کے بچوں اور بچیوں کے لئے مناسب نصابی کتابیں لکھنے کا کام سونپا۔ انہوں نے بچوں اور بچیوں کے لئے یکساں نصاب تجویزکیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے نصاب کی بدولت لڑکے اور لڑکیوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگی جو ان کی شادی کے بعد ان کی رفاقت میں مددگار ہوگی اور اسی تعلیم کی بدولت ضرورت پڑنے پر عورتیں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق مردوں کے پیشے اختیار کرسکیں گی۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ مردوزن میں سوائے صنفی اعضا کے اور کوئی امتیاز نہیں۔ ہر وہ کام جو مرد کرسکتا ہے، عورت بھی کرسکتی |