Maktaba Wahhabi

70 - 117
اس لئے جب بھی معاشرتی ارتقا اور سماجی فکری تبدیلیوں کی بحث ہوگی، عورتوں کے کردار کے تعین میں پردہ سرفہرست ہوگا۔‘‘ [1] مسلم ممالک میں عورتوں پر سماجی و فکری تبدیلیوں کا اظہار سب سے پہلے وہاں کی عورتوں کے طرزِ لباس سے ہوتا ہے۔اسی لیے مغرب زدہ فکر اور حقوقِ نسواں کی تنظیموں کا زور بھی پردے پر ٹوٹتا ہے۔اسی لیے پاکستان میں 1980ء کی دہائی میں صدر پاکستان ضیاء الحق(متوفیٰ1988ء)کے دور میں چادر اور چار دیواری کے نعرے نے مذہبی فکر میں کافی مقبولیت پائی۔عورت کے لیے چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کافی سماجی تبدیلیاں بھی عمل میں لائی گئیں جس نے آزادیٔ نسواں کی فکر کو بہت پسپا کیا اور ان کی کوششوں کو اسلام مخالف رنگ دینے میں مہمیز کا کردار ادا کیا۔ اس کے اثرات معاشرتی انتشار پر منتج ہوئے اور آزادیٔ نسواں کی حدود و قیود کی بحث نے مزید زور پکڑا اور حقوقِ نسواں کی تعبیرنو اپنے خدوخال زیادہ واضح کرنے لگی۔ حقوقِ نسواں کی باگ ڈور مسلم مفکرین کے ہاتھ میں اس حصہ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ حقوقِ نسواں کا پودا مسلم فضا میں کس طرح پلا بڑھا اور مسلمانوں نے اس کی حمایت یا مخالفت میں کن رویوں کااظہارکیا۔ حقوقِ نسواں کی تربیت ہی درحقیقت وہ اساس ہے جس نے مسلم دنیا میں معاشرے کی تعمیر نوکے نعرے کو جنم دیا۔حقوقِ نسواں کی تعبیر نو مغربی تحریک ِآزادئ نسواں کو اسلامیانے کی کوشش ہے۔ وہ مغربی فکر کو اسلامی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مغربی پودے کو پروان چڑھانے کے لئے جس زمین اور آب و ہوا کی ضرورت ہے، وہ اسلامی فکر کی تراش خراش کرکے اس کے لئے زمین اور آب و ہوا تیار کررہے ہیں۔ مساواتِ مرد و زَن کا نعرہ اگرچہ خالصتاً اہلِ مغرب کا تحفہ تھا مگر ایشیا اور اسلامی ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مسلمانوں میں اس کا پہلا حامی ترکی کا مصطفی کمال پاشا(متوفیٰ 1938ء) تھا جس نے ادارۂ خلافت توڑنے کے بعد اپنے ملک میں مخلوط معاشرے کو رائج کرنے کی کوشش کی۔ اس کو اندازہ تھا کہ دینی و مذہبی حلقے مخالفت کریں گے، لہٰذا اس نے بے دریغ علماے کرام کو تختہ دار پر لٹکایا، دینی تعلیم کو ملک سے ختم کردیا، قرآن پڑھنے اور اذان و نماز پر پابندی عائد کردی ، ملک کا دستور سیکولر بنا دیا، نئی اور جدید مغربی تعلیم کے ذریعے سے لوگوں کا رابطہ اپنے شاندار اور درخشاں ماضی کی روایات سے کاٹ دیا۔ اس وقت سے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے ذریعہ دین اور دینی روایات سے بغاوت کا سلسلہ چل رہا ہے۔ نئی نسل کے سامنے مصطفیٰ کمال کو جدید مسلم دنیا کا ہیرو اور ’اتاترک‘ یعنی ترکوں کا باپ قرار دیا گیا۔ اس وقت سے
Flag Counter