Maktaba Wahhabi

64 - 117
اور نظریاتی ارتقا نے مردوں اور عورتوں دونوں کی زندگیوں پر اثرات مرتب کئے۔ تاہم عورتوں کے لئے یہ تبدیلی خاص معنویت کی حامل تھی، عورتیں خود قومی بحث کا ایک اہم موضوع بن گئیں۔ ظہورِ اسلام کے بعد پہلی دفعہ عورتوں کے ساتھ برتاؤ سے متعلق اسلامی رسم و رواج اور قانون، تعددازواج، مرد کو طلاق کا اختیار اور عورتوں کی علیحدگی و خانہ نشینی مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں میں کھلے طور پر زیربحث آئے۔ عورتوں کا موضوع پہلے مصر اور ترکی کے مسلمان مرد دانشوروں کی تحریروں میں اہم موضوع کی حیثیت سے سامنے آیا۔ آغاز ہی سے عورتوں کے ساتھ برتاؤ اور ان کی حیثیت کے معاملات دوسرے مسائل کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ یہ دانشور ان مسائل کو معاشرے کے لئے بہت اہم قرار دیتے ہیں۔ ان مسائل میں قوم پرستی اور قومی ترقی کی ضرورت اور سیاسی، سماجی اور ثقافتی اصلاح کی ضرورت شامل تھی۔ ابتدا ہی سے عورت اور معاشرتی اصلاح کی بحث ان خیالات کے ساتھ پیوستہ تھی کہ یورپی معاشرے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور مسلم معاشروں کو اس سطح تک پہنچنا چاہئے۔ بہت سے نسوانی مفکرین نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ کیا وجہ ہے کہ جتنی عورت کی پستی اسلامی ممالک میں دیکھنے میں آتی ہے، اتنی اور کہیں نہیں آتی۔تمام اسلامی ممالک میں یکساں عنصر تو اسلامی تعلیمات ہی ہیں، دیگر وجوہات تو مختلف اقوام میں مختلف ہیں، لہٰذا اُنہوں نے نسوانی ترقی کی خاطر مسلم معاشرے کے مذہبی رجحانات کو اپنی تنقید کا مرکز بنایا۔ [1] اس طرح عورتوں سے متعلق ایک نئے مباحثے نے جنم لیا۔ اس نے جنسی تفریق سے متعلق پرانے کلاسیکی اور مذہبی ضوابط کی جگہ لے لی اور عورت کے متعلق مسائل کو قوم پرستی، قومی ترقی اور ثقافتی تبدیلی کے ساتھ منسلک کیا۔ اس صدی کے اختتام تک عورتوں سے متعلق بحث ان مسائل پر بحث کا لازمی نتیجہ بن چکی تھی۔ ان بحثوں کے نتیجے میں عورتوں کے کردار کے حوالے سے مسلم معاشروں میں جس نئی فکر نے جنم لیا، وہ مغرب سے انتہا درجے کی مرعوبیت پر مبنی تھی۔ جس نے نقطہ آغاز میں تومعاشرہ کے اہم خطوط میں مغرب کی نقالی پر زور دیا لیکن اتنے کو ناکافی جانتے ہوئے معاشرے میں ہمہ گیر نوعیت کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔اس رویے نے مسلم معاشروں کے مقابلے میں مغربی تہذیب کو خیر مطلق کی جگہ دے دی۔یہاں تک کہ مغربی فکر کے قابل اعتراض عناصر بھی قابل تقلید ٹھہرے۔جس راہ میں اسلامی تشخص آڑے آیا تو اس کی بھی اکھاڑ پچھاڑ ہونے لگی۔اسلامی کلچر ایک مغلوب کلچر کی جگہ لینے لگا تو مسلم معاشروں میں طبقہ نسواں کی تحریکوں نے عورت کو اسلامی ثقافت کی قید سے آزاد کرانے کی ٹھانی اور مسلمان عورت کو غالب کلچر سے ہم نوا کرنے کے لیے مذہب کو بھی کئی بار معتوب ٹھہرایا اور کئی بار مذہب کی تشریح کرنے والوں کو دقیانوس بتایا۔ کبھی تنقید کے در کھولے ا ور
Flag Counter