کبھی اسلامی احکامات میں ترمیم کی راہیں سمجھا دیں۔سادے الفاظ میں ان کا مطالبہ یہ تھا کہ مقامی ثقافت کی جگہ مغربی ثقافت کو دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عورت اور ثقافت کے مسئلے کے درمیان کوئی داخلی یا لازمی تعلق موجود نہیں۔ عورت کے مسئلے کو مقامی ثقافت سے آزاد کیا جائے۔ اُنہوں نے کہاہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی ثقافت مرد انہ مرکزیت اور عورت دشمنی پر مبنی ہے اور وہ مشرقی ثقافت کو صرف تنقید کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور وہ عورت کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا کر اسے مقامی ثقافت سے آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ لیکن طبقہ نسواں اگر مغرب کی نقالی پر ہی مصر ہے تو بھی ان کا یہ فارمولا ان کی اپنی مغربی ثقافت پر صادق نہیں آتا۔ کچھ صدیاں قبل جب یورپ تاریکی میں تھا، اس دور میں عورتوں کو جادوگرنیاں قرار دے کر پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ تب بھی مغرب میں کسی دانشور یا کسی عالم محقق نے یہ حل پیش نہیں کیا کہ عورتوں کے مسئلے کو مغربی ثقافت سے جدا کرکے ترقی کی راہ استوار کی جائے، بلکہ اُنہوں نے اپنی ثقافت کی اصلاح کی کوشش کی اور اُسے عورتوں کے لئے سازگار بنانے کی جدوجہد کی۔ [1] چنانچہ ایسے حالات میں مغرب نے اپنی ثقافتی اصلاحات میں اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق مناسب ترمیم کی،اور تعمیری طور پر اپنی ثقافت کی نشوونما کی۔ اُنہوں نے اپنے لئے ایک ثقافت کے اندر رہتے ہوئے عورت دشمنی کی ثقافت ترک کرنے کے لئے کسی دوسری ثقافت کو اختیار کرنا لغو جانا بلکہ اس خیال کو ہی اپنے ملی وجود کے لئے مہلک قرار دیا۔ ثقافتی اثرات کی پیچیدگی اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کی گہرائی ہی کچھ اسی نوعیت کی ہوتی ہے کہ جن سے افراد راہِ فرار اختیار کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ کہیں بھی جائیں ذہنی یا جسمانی طور پر پچھلی ثقافت کے اثرات اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں، اور اپنی زندگیوں میں اس ثقافت کا معتدبہ حصہ دوبارہ پیدا کرلیتے ہیں۔ جب مغرب کے افراد خود دنیا کے دوسرے علاقوں میں گئے ہیں تو وہاں اُنہوں نے بھی اپنی ثقافت کے دفاع اور استحکام کو مدنظر رکھا ،اور خود پر کسی کو غلبہ پانے نہیں دیا بلکہ اپنے نقطہ نظرکو دوسروں پر حاوی کیا۔ اُنہوں نے اسلامی دنیامیں عورتوں سے متعلق بحث میں عورتوں کی حیثیت میں بہتری کا مشورہ اپنی ثقافت کے تابع ہوکر دیا۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مقامی ثقافتیں، عورت دشمن ہیں اور ناقابل اصلاح ہیں۔ اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ عورت دشمن رسم و رواج ترک کردیئے جائیں بلکہ اس کی بجائے اُنہوں نے یہ کہا کہ مقامی ثقافت کی جگہ یورپی ثقافت کو دی جائے۔ حالانکہ جو حل اُنہوں نے اپنے لئے سوچا تھا ، وہی حل مسلمان دنیا کے لئے درست نہ تھا۔ آج اگر مسلمان دنیا مغرب کی اتباع کرنا چاہتی ہے تو ان کے اس پہلو کی اتباع کا کیوں نہیں سوچ سکتی جس پہلو سے مغرب نے اپنے عورت دشمن رواجات کی اصلاح کیلیےاپنی ثقافت کو ختم کرنے کا نہیں سوچا بلکہ اس کی اصلاح |