Maktaba Wahhabi

63 - 117
وجود کا انحصار تھا۔ یہ تازہ دم زندگی، حوصلہ و عزم اور مادی ترقی میں و سعت کی صلاحیت سے بھرپور مغربی تہذیب کا مسئلہ تھا،جس کا شمار تاریخ انسانی کی طاقتور اور وسیع ترین تہذیبوں میں کیا جانا چاہئے اور جو درحقیقت (اگر نظر غائر سے دیکھا جائے) ان اسباب و عوامل کا ایک قدرتی نتیجہ ہے، جوعرصہ سے تاریخ میں اپنا کام کررہے تھے اور مناسب وقت پر اس نئی شکل میں ظاہر ہونے کے منتظر تھے۔ عالم اسلام سب سے زیادہ اس خطرہ کی زد میں تھا اس لئے کارگاہِ حیات سے قدیم مذاہب کی کنارہ کشی کے بعد اسلام دینی و اخلاقی دعوت کا تنہا علمبردار اور انسانی معاشرہ کا واحد نگران اور محتسب رہ گیا تھا۔ بہت سے وسیع رقبہ، غیرمعمولی جغرافیائی اہمیت اور زرخیز ممالک اسی رقبہ میں واقع تھے۔ چنانچہ اس مادی اور میکانکی تہذیب کے چیلنج کا رُخ بہ نسبت کسی دوسری قوم اور معاشرہ کے زیادہ تر عالم اسلام ہی کی طرف رہا۔ اگرچہ اُنیسویں صدی کی ابتدا سے ہی مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں میں بنیادی سماجی تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ مغرب کی معاشی چیرہ دستیاں، عالمی معیشت پر بندشیں، اکثر خطوں میں جدید ریاستوں کا ظہور، اور اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا کے بیشتر علاقوں پر یورپی استعماری طاقتوں کا باضابطہ یا بے ضابطہ قبضہ، اس قلب ِماہیت کے اہم معاشرتی اور سیاسی خطوط تھے۔ اُنیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ہی مصر اور شام جیسے ممالک کی کچھ عورتیں، بالخصوص دیہی محنت کار اورنچلے طبقے کی عورتیں، اس معاشی اور سیاسی تغیرسے متاثر ہوچکی تھیں، جو ان ممالک میں یورپی اشیا کی آمد کے بعد رونما ہورہا تھا۔یورپ سے اشیا کی آمد اپنے ساتھ یورپی ثقافتی یلغار بھی لارہی تھی اور اس یورپی ثقافتی یلغار کے اثرات بالعموم عورتوں کے لئے پیچیدہ اور کچھ لحاظ سے فیصلہ کن طور پر منفی تھے۔ اس کے اثرات مسلمان معاشروں پر منفی ہوئے یا مثبت، اس سے قطع نظر یہ آنے والے وقت میں غیر اقوام کی بالادستی کا اشارہ تھے۔ کوئی بھی تہذیب جب اُٹھتی ہے تو تخلیقی طاقت کے زور پر قوت پکڑتی ہے۔ جب کوئی گروہ اپنی تخلیقی صلاحیت کے ذریعے نئی فکر اورعملی طاقتوں کو دریافت کرتا ہے تو یہ دریا فت اس گروہ کو دوسرے لوگوں سے آگے کردیتی ہے۔ اس طرح ایک تہذیب وجود میں آتی ہے اور اس تہذیب کے حامل دوسروں پر فوقیت حاصل کرلیتے ہیں۔ مغربی تہذیب کی ثقافتی یلغار کا عورتوں کی زندگی پر منفی اثر اس لئے سمجھا گیا، کیونکہ اس کی آمد کی بدولت عورتوں پر حاکمیت، ان کی خانہ نشینی اور معاشرے کے اہم شعبوں سے ان کے اِخراج کو تقویت دینے والی اقدار اور طور طریقے بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے تھے۔ مشرقِ وسطیٰ کا سماجی نظام اس ثقافتی یلغار کے نتیجے میں عورت دشمن اور جاہلیت پر مبنی تصور کیا جانے لگا تھا اور عورتیں مقامی معاشرت کو اپنے ذاتی تشخص کا قتل قرار دینے لگ گئی تھیں۔ اس لئے ایسے نظام کی شکست و ریخت پر عورتوں کے متاسف ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ عورتوں نے نئی آنے والی ثقافت کو سراہا اور پھر اپنے عمل سے اس کو شاباش دی۔ معاشی تغیر اور مقامی یا استعماری افسر شاہی کے اختیار سے جاری ہونے والی ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اورثقافتی
Flag Counter