دیا:ضرورت کے وقت ہو گا۔اس اثر کو اِمام بیہقی رحمہ اللہ نے ’مدخل‘ میں بیان کیا ہے ۔‘‘ اسی موقف کو اِمام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں: ’’القیاس مشروع عند الضرورة لا أنه أصل برأسه. ‘‘[1] ’’قیاس تو صرف ضرورت کے وقت ہوتا ہے نہ کہ یہ بذاتہ کوئی اصل ہے۔‘‘ علامہ ابن سمعانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 479ھ)فرماتے ہیں: ’’متی ثبت الخبر صار اصلا من الأصول و لا یحتاج إلى عرضه على أصل آخر لأنه إن وافقه فذاك وإن خالفه لم یجز رد أحدهما لأنه رد للخبر بالقیا س وهو مردود بالاتفاق فإن السنة مقدمة على القیاس بلا خلاف. ‘‘[2] ’’جب خبر ثابت ہو جائے تو وہ اصول شرعیہ میں سے ایک اصل بن جاتی ہے اور اس کو کسی دوسری اصل پر پیش کرنے کی احتیاج نہیں ہوتی کیونکہ اگر تو وہ اس کے موافق ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ اس کے مخالف ہو توان میں سے کسی ایک کو بھی رد کرنا جائز نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ خبر کا قیاس کے ذریعے رد شمار ہو گا اور ایسا رد بالاتفاق مردود ہے، کیونکہ سنت ہر حال میں قیا س پر مقدم ہوتی ہے۔‘‘ محدثین کرام رحمہم اللہ کی رائے یہ ہے کہ قیاس اگرصحیح ہو تو وہ کسی طور پر بھی صحیح خبر سے معارض نہیں ہوتابلکہ جتنی بھی ایسی اخبارِصحیحہ کہ جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ قیاس کے خلاف ہیں ، علماء نے ان کو قیاس کے مطابق ثابت کیا ہے مثلاًحدیث مصراۃ و غیرہ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1176ھ)لکھتے ہیں: ’’أن جماعة من الفقهاء زعموا أنه یجوز رد حدیث یخالف القیاس من کل وجه فتطرق الخلل إلى کثیر من الأحادیث الصحیحة کحدیث مصراة وحدیث القلتین فلم یجد أهل الحدیث سبیلا في الزامهم الحجة إلا أن یبینوا أنها توافق المصالح المعتبرة في الشرع. ‘‘[3] ’’فقہاء رحمہم اللہ کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ ایسی حدیث کو رد کرنا جائز ہے جو کہ قیاس کے مخالف ہو۔اس وجہ سے بہت سی صحیح احادیث شکوک و شبہات کی نظر ہو گئیں مثلا ًحدیث مصراۃ اور حدیث قلتین۔اس صورت حال میں محدثین رحمہم اللہ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان فقہاء کرام رحمہم اللہ پر حجت قائم کریں اور یہ واضح کریں کہ اس قسم کی روایات شریعت کی مصالح معتبرۃ کے موافق ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی درست ہے کہ قیاس میں شبہ حدیث کی نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدیث میں اصل شبہ اس کی نقلِ روایت میں ہے اورجب ثابت ہو جائے کہ نقلِ روایت میں عدالت، ضبط، اتصال سند، علت کا ہونا |