قیاس مردود اور فاسد ہے۔ قیاس کے بارے میں صحیح موقف جو ائمہ محدثین رحمہم اللہ ، مثلا اِمام شافعی، اِمام احمد (متوفیٰ 241ھ) اور اِمام مالک رحمہم اللہ و غیرہ نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ قیا س ضرورت کے وقت مشروع ہے اور اگر خبر موجود ہو تو قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’لا یحل القیاس والخبر موجود کما یکون التیمم طهارة عند الاعواز من الماء ولا یکون طهارة إذا وجد الماء إنما یکون طهارة في الإعواز. ‘‘[1] ’’خبر کی موجودگی میں قیا س بالکل بھی جائز نہیں ہےجیسا کہ تیمم اس وقت طہارت کا فائدہ دیتا ہے جبکہ پانی موجود نہ ہو ۔لیکن اگر پانی موجود ہو توتیمم سے طہارت حاصل نہ ہو گی۔‘‘ یہی قول اِمام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے ۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فإذا لم یکن عند الإمام أحمد في المسألة نص ولا قول الصحابة أو واحد منهم ولا أثر مرسل أو ضعیف عدل إلى الأصل الخامس وهو القیاس فاستعمله للضرورة. ‘‘[2] ’’پس جب اِمام احمد رحمہ اللہ کے پاس کسی مسئلے میں نص یا صحابہ کا قول یا کوئی مرسل روایت یا ضعیف خبر نہیں ہوتی تو وہ (کسی مسئلے کے حل کے لیے) اپنے پانچویں اصول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ قیاس ہے پس وہ قیاس کو ضرورتاًاستعمال کرتے ہیں ۔‘‘ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ کا اپنا بھی یہی موقف ہے ، وہ لکھتے ہیں: ’’یصار إلى الإجتهاد و إلى القیاس عند الضرورة. وهذا هو الواجب على کل مسلم إذ اجتهاد الرأی إنما یباح للمضطر کما تباح له المیتة والدم عند الضرورة ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَا اِثْمَ عَلَيْهِ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ وکذلك القیاس إنما یصار إلیه عند الضرورة. قال الإمام أحمد: سألت الشافعی عن القیاس فقال: عند الضرورة ذکره البیهقی في مدخله .‘‘ [3] ’’اجتہاداور قیاس ضرورت کے وقت ہوگا۔اور یہی بات ہر مسلما ن پر واجب ہے، کیونکہ رائے کا اجتہاد مضطرب کے لیے مباح ہے جیسا کہ اس کے لیے ضرورت کے وقت مردار اور خون مباح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :پس جو بھی مجبور کر دیا گیا اس حال میں کہ وہ نہ تو زیادتی کرنے والاہو اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے،بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔اسی طرح قیا س بھی ضرورت کے وقت ہو گا۔ اِمام احمدکہتے ہیں کہ میں نے اِمام شافعی رحمہ اللہ سے قیاس کے بارے میں سوال کیا: تو انہوں نے جواب |