Maktaba Wahhabi

58 - 117
میں قابل فہم یا قابل ادراک ہو جائے۔لہٰذا یہ متعین کرنا بے حد مشکل ہے کہ کس صدی کی عقل کو اصل معیار سمجھا جائے گا؟‘‘‘ [1] اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب کوئی حدیث محدثین رحمہم اللہ کے اصولوں کے مطابق صحیح ثابت ہو جائے تو کبھی عقلِ صحیح کے خلاف نہیں ہوتی۔علماء نے ایسی تمام روایات کہ جن کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقل کے خلا ف ہیں، مطابقِ عقل ثابت کیا ہے اور اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’درء تعارض العقل و النقل‘‘،اس موضوع پر ایک وقیع اور علمی کتاب ہے۔ چھٹا اصول اصلاحی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے چھٹی اور آخری کسوٹی دلیل قطعی ہے جیسا کہ ابھی اوپر گزر چکا ہے، خطیب بغدادی رحمہ اللہ بھی اس اصول کو مانتے اور پیش کرتے ہیں کہ دلیل قطعی کے منافی خبر واحد قبول نہیں کی جائے گی۔دلیل خواہ عقلی ہو یا نقلی ، بہر حال ایک ایسی خبر کے مقابلے میں اپنے اندر زیادہ اطمینان کا پہلو رکھتی ہے جس کی رسول کی طرف نسبت مشکوک ہے۔ اتباع رسول کے پہلو سے بھی مشکوک خبر کے مقابل میں دلیل کی راہ زیادہ مامون ہے۔یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی بات اگرچہ اس کی نسبت مشکوک بھی ہو،عقلی فیصلوں سے زیادہ قابل اطمینان ہے۔غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ اجتہاد کی غلطی میں مبتلا ہونا جھوٹ میں پڑنے سے بہر حال زیادہ اہون ہے۔اجتہاد کی غلطی کی اصلاح ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ کے رسول کی طرف کوئی غلط طور پر منسوب بات مذہب بن گئی تو اس کے فتنے بہت دور تک پہنچیں گے او ر ان کی اصلاح کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا ۔‘‘ [2] تبصرہ اِصلاحی صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک دلیل قطعی کی دو قسمیں کی ہیں: ۱۔ ایک عقلی ہے، جس سے ان کی مراد قیاس واجتہاد ہے ۔ ۲۔ دوسری نقلی کہ جس سے ان کی مرادقرآن کی وہ تفسیر ہے جو کہ قطعی ذرائع(یعنی نظم قرآن ‘ محاورہ عرب وغیرہ) سے حاصل ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث نصوص قطعیہ کا درجہ رکھتی ہیں ۔لہٰذا ان کے مقابلے میں کیا جانے والا ہر
Flag Counter