Maktaba Wahhabi

57 - 117
قائم ہے اور انہی کے تقاضے اور مطالبات وہ اپنی تعلیمات سے لوگوں کے سامنے نمایاں کرتا ہے۔قرآن کا ہر طالب علم اس بات سے واقف ہے کہ وہ انہیں حکم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔اس نے مشرکین عرب کے سامنے بھی انہیں قولِ فیصل کے طور پر پیش کیا ہے اور یہود و نصاری کے سامنے بھی۔ان کے مخالفین کو وہ ہوائے نفس کا پیرو قرار دیتا ہے ۔وجدان کے حقائق ، تاریخ کی صداقتیں ، تجربے اور مشاہدے کے ثمرات و نتائج ، یہ سب قرآن میں اسی حیثیت سے زیر بحث آئے ہیں ۔لہٰذا وہ چیزیں جنہیں خود قرآن نے حق و باطل میں امتیاز کے لیے معیار ٹھہرایا ہے، ان کے خلاف کوئی خبر واحد آخر کسی طرح قابل قبول ہو سکتی ہے؟بالبداہت واضح ہے کہ ہم اسے ہر حال میں رد ہی کریں گے۔‘‘ [1] تبصرہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض سلف صالحین مثلاً خطیب بغدادی،علامہ ابن جوزی اور علامہ سخاوی رحمہم اللہ وغیرہ نے اپنی بعض تحریروں میں موضوع روایت کی پہچان اور علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ عقل صریح کے خلاف ہو، لیکن ان سلف صالحین کے ہاں خبر واحد کا عقل صریح کے خلاف ہونا موضوع حدیث کی علامت تو ہے، لیکن علت یا سبب نہیں ہے ۔ اس بارے میں مولانا غازی عزیر حفظہ اللہ نے بھی بہت اچھی بحث کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں: ’’لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو بات آج کسی فرد واحد کی عقل سے مدرک نہ ہو وہ دوسرے افراد کی عقول یا خود اسی فرد کے لیے کچھ زمانہ گزرنے کے بعد یا مزید غور و خوض کے بعد بھی غیر مدرکِ عقل ہی رہے۔ غیر مدرکِ عقل امر کی ایک مثال سریر سلیمانی کا بر دوش ہوا اڑنا ہے۔ اگرچہ یہ عمل خلافِ عادت ہے مگر خلافِ عقل ہر گز نہیں ہے۔عام طور پر اس معاملے میں استبعادِ عقل صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ ا نسان اپنی محدود طاقت و قدرت کو اللہ عز وجل کی لا محدود طاقت و قدرت کے ہم پلہ سمجھ لیتا ہے ...اسی طرح یہ سوال بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کی عقل کو معیار سمجھا جائے گا یا چودھویں صدی ہجری کی عقل کو؟اگر جواب یہ دیا جائے کہ پہلی صدی ہجری کی عقل کو ، کہ اس دور کے لوگ عہدِ رسالت سے قریب تر تھے اور دین کا فہم ہم سے بہتر رکھتے تھے تو ہم یہ کہیں گے فلسفہ جدید و قدیم کا مطالعہ تو اس کے برخلاف یہ بتاتا ہے کہ ہر صدی کے محققین و عقلاء نے اپنی سابقہ صدیوں کے اصول و نظریات کو نہ صرف فرسودہ قرار دیا بلکہ فرسودہ ثابت بھی کر دکھایا ہے۔ میڈیکل سائنس اور علم نفسیات کی روشنی میں بھی انسانی ذہن روز افزوں ترقیاتی منازل طے کرتا جا رہا ہے ، پس ممکن ہے کہ جو چیز پہلی صدی ہجری کی عقول تک رسائی نہ پاسکی ہو وہ چودھویں یا پندرہویں صدی ہجری
Flag Counter