Maktaba Wahhabi

56 - 117
کایہ اصول درست نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں بہت سے ایسے صحابہ جو کہ مدینہ میں رہتے تھے ،تبلیغ و اشاعت دین کی غرض سے دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے۔اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (متوفیٰ 1063 ھ)کے بقول تقریباً تین صد صحابہ نے مدینہ سے مختلف اوقات میں کوفہ وغیرہ کی طرف نقل مکانی کی تھی اب دوسرے علاقوں میں جانے کے بعد کیاان صحابہ کا عمل غیر معتبر ہو گا؟ کیا ان سابقہ مدنی صحابہ کا عمل ‘اہل مدینہ کے عمل میں شمار نہیں ہوگا؟ اس بارے میں اِمام ابن قیم رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں: ’’الجدران والمساکن والبقاع لا تأثیر لها في ترجیح الأقوال وإنما التأثیر لأهلها وسکانها.‘‘[1] ’’ترجیح اقوال میں درودیوار ، مکان اور علاقے غیر مؤثر ہوتے ہیں۔اس کے لیے تو ان علاقوں کے رہنے والے اور ساکنین ہی موثر ہوتے ہیں۔‘‘ ’عموم بلویٰ‘کی صورت میں متاخرین حنفیہ کا قیاس کو خبر پر ترجیح دینا بھی ایک غیر معقول اصول ہے ۔ پانچواں اصول اصلاحی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’عقل کلی حدیث کے غث وسمین میں امتیاز کے لیے پانچویں کسوٹی کا کام دیتی ہے ۔اس باب میں صاحب ’’الکفایة‘‘ کا حوالہ ا وپر گزر چکا ہے۔ عقل کے منافی روایات قبول نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دین کی بنیاد ، جیسا کہ دوسری جگہ بیان ہو چکا ہے، تمام تر عقل و فطرت پر ہے۔ عقل و فطرت ہی کے مقتضیات و مطالبات ہیں جو قرآن وسنت میں اجاگر کیے گئے ہیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عقل اور فطرت ہی کے حوالے سے لوگوں پر حجت قائم کی ہے اور ان لوگوں کو عقل کا دشمن گردانا ہے جنہوں نے ہوائے نفس کی پیروی میں دین فطرت کی مخالفت کی۔ ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ایسی روایت قبول کی جائے جو دین کی اصل بنیاد ہی کی نفی کرنے والی ہو ،چناچہ منافی عقل روایات قبول نہیں کی جائیں گی ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث افراد وانفار کی عقل نہیں،بلکہ عقل کلی ہے جو انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا شرف ہے ۔‘‘ [2] غامدی صاحب اپنے استاد کی تائید میں لکھتے ہیں: ’’علم و عقل کے مسلمات بھی اس باب میں یہی حیثیت رکھتے ہیں۔قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اس کی دعوت تمام تر انہی مسلمات پر مبنی ہے ۔تو حید ومعاد جیسے بنیادی مباحث میں بھی اس کا استدلال اصلاً انہی پر
Flag Counter