Maktaba Wahhabi

61 - 117
اور عدمِ شذوذ موجود ہے تو یہ شبہ رفع ہو جاتا ہےلیکن قیاس میں شبہ اس کے ارکان میں موجود ہے ۔مثلاً ایک مجتہد نے جو علت نکالی ہے کیا واقعتاً وہی علت شارع کے بھی پیش نظر تھی یا نہیں ۔اسی طرح مقیس میں وہ علت پائی جاتی ہے یا نہیں ، اس میں بھی غلطی کا امکان موجود ہے ۔ عام طور پر یہ جو معروف ہو گیا ہے کہ احناف کا یہ مسلک ہے کہ وہ خبر کے مقابلے قیا س کو ترجیح دیتے ہیں، صحیح نہیں ہے ۔یہ متاخرین فقہائے احناف رحمہم اللہ کی ایک محدود جماعت کا موقف ہے۔ جہاں تک اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور فقہائے احناف رحمہم اللہ کا تعلق ہے، توان کے نقطہ نظر کے مطابق ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جائے گی۔اِمام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وأصحاب أبي حنیفة مجمعون على أن ضعیف الحدیث مقدم على القیاس والرأی و على ذلك بني مذهبه. ‘‘[1] ’’اصحاب ابی حنیفہ رحمہ اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث کو قیاس اور رائے پر مقدم کیا جائے گا اور اسی اصول پر مذہبِ حنفی کی بنیاد ہے۔‘‘ یہ تو اصلاحی صاحب کی عقلی دلیلِ قطعی کا ایک مختصر سا ناقدانہ جائزہ تھا، جبکہ ان کی نقلی دلیلِ قطعی کے حوالے سے ہم مولانا حمید الدین فراہی ﷫کے تصورِ ’درایت‘ کے ذیل میں گفتگو کر چکے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ دلیلِ قطعی چاہے عقلی ہو یا نقلی ، دونوں صورتوں میں خبر واحد کو اس پر مقدم کیاجائے گا۔ خلاصہ کلام درایت کے جدید تصویریں احادیث کی جانچ پڑتال اور پرکھنے جتنے بھی عقلی و نقلی معیارات بیان کیے گئے ہیں۔ نقل صریح اور عقل صحیح کے خلاف ہیں، لہٰذا درایت کا وہی تصور عقل ونقل کے مطابق ہے جو محدثین عظام نے علوم حدیث کی کتب میں بیان کر دیا ہے۔ درایت کے جدید تصور کے محققین نے جس انداز اور اسلوب سے اپنی فکر کو روایتی مصادر سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ اسلوب تحقیق خود محل نظر ہے اور اس میں درایت کے روایتی موقف کو سمجھنے میں بنیادی غلطیاں ہوئی ہیں۔
Flag Counter