Maktaba Wahhabi

54 - 117
قبول نہیں کی جائے گی۔’’الفعل جاری مجری السنة‘‘سے صاحب ’’الکفایة‘‘ کی مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو مالکیہ ’’العمل عندنا هکذا‘‘سے تعبیر کرتے ہیں ۔یعنی کسی باب میں کوئی عمل معروف کی حیثیت سے چلا آ رہا ہے۔اس طرح کے عمل کو مالکیہ سنت ہی کے درجہ میں رکھتے ہیں ۔اس لیے کہ جو عمل پوری جماعت سے اس طرح چلا آ رہا ہے، اس کے متعلق قرینہ یہی ہے کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری حاصل ہے ۔اس وجہ سے مالکیہ اہل مدینہ کی سنت کے خلاف جس طرح دوسری سنت کو قبول نہیں کرتے اسی طرح اپنے اندر کے لوگوں کے اس عمل کو بھی جو تواترکے ساتھ چلا آ رہا ہے خبر واحد کے مقابل میں زیادہ قابل اطمینان خیال کرتے ہیں ۔یہی حال حنفیہ کا بھی ہے۔ وہ بھی ان مسائل میں جن کا تعلق عام لوگوں کی زندگی سے ہو اخبار آحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے بلکہ اس عمل کو ترجیح دیتے ہیں جو لوگوں نے اپنے انتخاب و اجتہاد سے اختیار کر رکھا ہے یا اس معاملہ میں اجتہاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔عموم بلویٰ کی صورت میں ان کے نزدیک اجتہاد خبر واحدسے زیادہ قرین احتیا ط ہے ۔‘‘ [1] جناب غامدی صاحب اپنے استاذ اِمام کی تائید میں لکھتے ہیں: ’’یہی معاملہ سنت کا ہے دین کی جو ہدایت اس ذریعے سے ملی ہے اس کے متعلق بھی یہ بات پوری قطعیت سے واضح ہو چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن ہی کی طرح پورے اہتمام سے جاری فرمایا ہے۔ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ وہ جس طرح امت کے اجماع سے ثابت ہے ، یہ بھی اسی طرح امت کے اجماع ہی سے اخذ کی جاتی ہے ۔سنت سے متعلق یہ حقائق چونکہ بالکل قطعی ہیں ، اس لیے خبر واحد اگر سنت کے منافی ہو اور دونوں میں توفیق کی کوئی صورت تلاش نہیں کی جاسکتی تواسے لا محالہ رد ہی کیاجائے گا۔‘‘ [2] تبصرہ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے اپنی بیان کردہ چوتھی کسوٹی کے ثبوت کے لیے جس روایت کو بطور دلیل نقل کیا ہے اس کی استنادی حیثیت پر ہم پچھلے اصول کے ذیل میں بحث کر چکے ہیں کہ یہ روایت حد درجہ کی ضعیف بلکہ موضوع ہے۔ جہاں تک مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کا یہ کہنا ہے کہ عمل اہل مدینہ ،مالکیہ کے نزدیک حجت ہے اور مالکیہ ہر ایسی خبر واحد کو رد کر دیتے ہیں جو کہ عمل اہل مدینہ کے خلاف ہو۔ اس بارے میں یہ بات واضح رہے کہ یہ اصول اِمام مالک رحمہ اللہ (متوفیٰ 179ھ) کا نہیں ہے، بلکہ یہ متاخرین مالکیہ کا ہے۔ کیا عمل اہل مدینہ، اِمام مالک رحمہ اللہ کے ہاں نقد روایت کا کوئی اصول ہے؟ اس ضمن میں اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: مولانا غازی عزیر مبارکپوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں: ’’راقم کو مالکیہ کی جس قدر بھی متداول و غیر متداول کتب کے مطالعے کا موقع ملا ہے ان میں سے کسی میں بھی یہ
Flag Counter