Maktaba Wahhabi

53 - 117
’’کشف الخفاء‘‘ میں اس روایت کو ’’موضوع‘‘ قرار دیا ہے۔ [1]علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ (متوفیٰ 816 ھ)نے ’’سفر السعادة‘‘ میں اس کو ’’أوضع الموضوعات‘‘ کہا ہے۔ اِمام خطابی رحمہ اللہ (متوفیٰ 388ھ)کا کہنا ہے کہ یہ روایت ’’باطل‘‘ اور ’’بے اصل‘‘ ہے۔[2] اِمام یحی بن معین رحمہ اللہ (متوفیٰ 233ھ)کا قول ہے کہ اس روایت کو زنادقہ نے گھڑا ہے۔[3] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے حد درجے ’’منکر‘‘ کہا ہے۔[4] اِمام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’الفوائد المجموعة‘‘میں اس روایت کو من گھڑت کہا ہے۔[5] اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’ضعیف جداً‘ کہا ہے ۔[6] اِمام شوکانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بہ اعتبار سند’ موضوع‘ قرار دیتے ہوئے اس کے متن پر یہ تبصرہ مزید کیا ہے کہ اگر خود اس حدیث کو کتاب اللہ پر پیش کیا جائے تو یہ حدیث مردود قرار پاتی ہے، کیونکہ کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی تم کو دیں تم اس کو قبول کر لواور جس سے تم کو روک دیں تو تم بھی اس سے رک جاؤ۔ چوتھا اصول مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’حدیث کے صحیح و سقیم کی پرکھ کے لیے چوتھی کسوٹی سنت معلومہ ہے ۔محولہ بالا حدیث کی روشنی میں سنت کا جو ذخیرہ امت کی تحویل میں ہے وہ بجائے خود بھی کسوٹی ہے۔کوئی چیز جو اس سنت معلومہ سے بے گانہ یا متصادم ہو گی ، وہ قبول نہیں کی جائے گی کہ سنن عملی تواتر سے ثابت ہیں ، ان پر اخبار آحاد اثر انداز نہیں ہو سکتیں ۔سنن روایت کے بالمقابل قدیم تر ہیں...سنت عملی تواتر سے ثابت ہے اس وجہ سے اس کے ردو قبول کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔البتہ اخبار آحاد سے متعلق علماء نے تصریح کی ہے کہ بعض صورتوں میں لازمًا رد کر دی جاتی ہیں ...خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی وہ تمام اخبار آحادجو منافی سنت معلومہ اور عمل قائم مقام سنت کے حکم میں داخل ہیں ،رد کر دی جائیں گی۔اسی طرح ’’الفعل الجاری مجری السنة‘‘عمل قائم مقام سنت کے منافی خبر واحد بھی
Flag Counter