Maktaba Wahhabi

44 - 117
کی تفسیر میں آپس میں اختلاف کیوں ہوا؟ صحابہ کرا م ، تابعین عظام رحمہم اللہ ، ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ، طبری، قرطبی و رازی، زمخشری رحمہم اللہ وغیرہ کے بارے میں شاید غامدی صاحب یہ کہیں کہ وہ عربی معلی سے واقف نہیں تھے یا ان پر نظم قرآنی کے ذریعے تفسیر کے وہ نادر اصول ابھی تک منکشف نہیں ہوئے تھے کہ جن کی دریافت پرغامدی صاحب نے مولانافراہی و اصلاحی کو اِمام کے لقب سے نواز الیکن خود مولانا فراہی رحمہ اللہ اور مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے ساتھ غامدی صاحب کے تفسیر کے جو اختلافات ہوئے، ان کے بارے میں وہ کیا کہیں گے؟‘‘ [1] مولانا اصلاحی رحمہ اللہ اور غامدی صاحب کے درایتی اصول مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے حدیث کے رد وقبول کے لیے چھ درایتی اصول بیان کیے ہیں۔اپنے استاد کی اتباع میں جناب غامدی صاحب نے بھی ان میں سے بعض اصولوں کو بیان کیا ہے ۔چونکہ جاوید احمد غامدی صاحب کے تصورِ درایت میں بھی اصل کی حیثیت جناب اصلاحی صاحب کو حاصل ہے، لہٰذا ہم انہی کے نقطہ نظر کو بنیاد بنا کر اس تصورِ درایت پر نقد کریں گے۔ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے ساتھ جہاں جہاں غامدی صاحب نے ان کی صریح موافقت کی ہے، ہم ذکر کرتے جائیں گے۔ اصلاحی و غامدی صاحب کے اصول درایت درج ذیل ہیں: پہلا اصول مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لیے پہلی کسوٹی یہ ہے کہ کوئی روایت جس کو اہل ایمان اور اصحاب معرفت کا ذوق قبول کرنے سے اباء کرتا ہے وہ قبول نہیں کی جائے گی ۔اس اصول کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رہنمائی فرمائی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: عن أبي حمید أن رسول اللّٰه صلی للّٰہ علیہ وسلم قال ((إذا سمعتم الحدیث عني تعرفه قلوبکم وتلین له أشعارکم وأبشارکم وترون أنه منکم قریب فأنا أولاکم به. وإذا سمعتم الحدیث عني تنکره قلوبکم تنفر منه أشعارکم وأبشارکم و ترون أنه منکم بعید فأنا أبعدکم منه)) [2] ’’ابو حمید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے منسوب کوئی ایسی روایت سنو جس سے تمہارے دل آشنائی محسوس کریں، تمہارے رونگٹے اور تن بدن اس سے اثر پذیر ہوں اور تم دیکھو کہ وہ تمہارے دلوں سے زیادہ قریب ہے تو میں تمہارے نسبت اس کے زیادہ قریب ہوں۔ اور جب تم مجھ سے منسوب کوئی
Flag Counter