ایسی بات سنوجس سے تمہارے دل اجنبیت محسوس کریں،تمہارے رونگٹے اور جسم اس سے ناگواری محسوس کریں اور تم دیکھو کہ وہ تمہارے مزاج سے دور ہے تو میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ دور ہوں۔‘‘ [1] تبصرہ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ نے جس روایت کا تذکرہ کیا ہے اس کی صحت کے بارے میں علما کا اختلاف ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہو بھی تو اس میں ضعیف یا موضوع احادیث کو پہنچاننے کی علامات کا بیان ہوا ہے۔ لہٰذا ایک ایسی روایت، جس کی صحت ہی مختلف فیہ ہو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے رد و قبول کے حوالے سے کیسے ایک اصول بن سکتی ہے ؟ اس روایت کی صحت کے حوالے سے علمائے محدثین رحمہم اللہ کے اقوال ملاحظہ ہوں: اِمام ابن قطان رحمہ اللہ (متوفیٰ 628 ھ)نے ’’الوهم والإیهام‘‘ میں اس روایت کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔[2] اِمام ابن مفلح رحمہ اللہ (متوفیٰ 763 ھ)نے ’’الآداب الشرعیة‘‘میں اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے: ’’إسناده جید‘‘ ۔[3] اِمام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفیٰ 774 ھ)نے بھی اپنی تفسیر [4]میں اس کی سند کوایک جگہ’’إسناده جید‘‘ ، جبکہ دوسری جگہ’’ إسناده صحیح‘‘[5] لکھا ہے۔ اِمام ہیثمی رحمہ اللہ (متوفیٰ 807 ھ)نے ’’مجمع الزوائد ‘‘میں اس کے بارے میں: ’’رجاله رجال الصحیح‘‘ کا حکم بیان کیا ہے ۔[6] اِمام الکنانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 963ھ)نے’’تنزیه الشریعة المرفوعة‘‘ میں اس روایت کی سند کو’’اسناده صحیح‘‘ کہاہے۔ [7]علامہ البانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1420 ھ)نے ’’السلسلة |