درج بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ حنفیہ کی طرف یہ قول منسوب کرنا درست نہیں ہے کہ وہ حدیث مرسل کو بلا کسی قید ہر حال میں قبول کرلیتے ہیں بلکہ وہ درج بالا تفصیل کےمطابق قبول کرتے ہیں، جس میں بنیادی شرط یہ ہے کہ ارسال کرنے والے کا ثقہ ہونا ضروری ہے۔ ثقہ راوی کی روایت کی حجیت کےکچھ دلائل ’صاحب مہذب‘ نےذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے: 1۔ عادل اور ثقہ راوی کا ظاہر حال اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ حدیث کو صرف اسی وقت آگے روایت کرے گا جب اس کو اس بات کا یقین یا غالب گمان ہوگا کہ یہ قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب حذف کیے گئے راوی کی عدالت اس کے نزدیک ثابت ہو۔ 2۔ عادل راوی کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ حدیث کو مرسل اس وقت بیان کرتا ہے جب اس کو اس حدیث کےثابت ہونے کا یقین ہو۔ اگر شک ہو تو وہ ارسال نہیں کرتا بلکہ اس شیخ کانام ذکر کردیتا ہے جس سےاس نے روایت سنی ہے تاکہ ذمہ داری اس شیخ پر پڑے۔ یہ عادل راویوں کی عام عادت تھی اور کئی تابعین کے اقوال اس کی تائید کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّةً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَ لِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ﴾ [1] اس آیت سے نکلنے والے گروہ پر یہ بات واجب کی گئی ہےکہ جب وہ اپنی قوم کے پاس دین سیکھ کر واپس آئیں تو ان کو اللہ سے ڈرائیں اور اس آیت میں اس بات کی کوئی تفریق نہیں کی گئی کہ ڈرانے کےلیےمرسل روایت ذکر کریں یامسند ذکر کریں۔ لہٰذا یہ آیت مرسل حدیث کی حجیت پر ویسے ہی دلالت کرتی ہے جیسا کہ مسند حجیت پردلالت کرتی ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ﴾ [2] اس آیت میں تحقیق خبر کو اس وقت ضروری قرار دیا گیا ہے جب خبر دینے والافاسق ہو۔چنانچہ اگر مخبر فاسق نہ ہو بلکہ عادل و ثقہ ہو تو اس کی خبر قبول کرناضروری ہوگا، برابر ہے کہ وہ خبر مرسل ہو یامسند ہو۔ [3] یاد رہے کہ حنفیہ میں سے عیسیٰ بن ابان معتزلی رحمہ اللہ (متوفیٰ 835ھ) کامذہب جمہور احناف سےمختلف ہے کیونکہ ان کےنزدیک صرف قرونِ ثلاثہ کی مرسل روایت مقبول ہوگی یا پھر ان ائمہ کی مرسل روایت مقبول ہوگی جو فن جرح و تعدیل کےماہر ہوں گے۔[4] قرونِ ثلاثہ کی مرسل کےمقبول ہونے کی دلیل یہ مشہور حدیث |