Maktaba Wahhabi

117 - 117
ہے: ((خیر أمتي القرن الذين يلوني، ثم الذین یلونهم، ثم الذین یلونهم)) [1] یہ حدیث قرون ثلاثہ کے خیر ہونے پردال ہے لہٰذا ان زمانوں کی مرسل روایات بھی مقبول ہوں گی ۔اور ائمہ جرح وتعدیل کی مرسل اس لیےمقبول ہوگی کہ وہ چونکہ اپنے فن کےماہر ہیں لہٰذا انہوں نے راوی پر مطمئن ہونےکے بعد ہی حدیث کو مرسل بیان کیا ہوگا ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک حدیثِ مرسل کی حجیت مرسل حدیث کی حجیت کے بارےمیں امام مالک رحمہ اللہ سے دو رائے منقول ہیں: ۱۔ ایک قول یہ ہے کہ حدیثِ مرسل حجت نہیں ہے۔ یہ قول صرف ابوعبداللہ الحاکم رحمہ اللہ (متوفیٰ 405ھ) نےذکر کیا ہے اور اس کا مأخذ بیان نہیں کیا۔علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ قول نہ تو درست ہے او رنہ ہی مشہور ہے۔ [2] ۲۔ دوسراقول یہ ہے کہ حدیثِ مرسل امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک حجت ہے ۔ اصول کی عام کتب میں یہ قول مذکور ہے او رامام مالک رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہی قول مشہور ہے۔ [3] امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک حدیثِ مرسل کے حجت ہونےکی تائید اس بات سےبھی ہوتی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’ مؤطا‘‘ میں بہت سی مرسل روایات ذکر کی ہیں جن کو ’’بلاغات مالک‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ابوزہرہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 1394ھ) نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں۔[4] علاوہ ازیں اکثر علماء نے ا س قول کا ذکر کیا ہے او راسی قول کو مشہور قرار دیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کی جانب سے یہی بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ مطلقاً حدیثِ مرسل کی حجیت کےقائل ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔مالکی عالم ابو الولید الباجی رحمہ اللہ (متوفیٰ 474ھ) حدیثِ مرسل کی حجیت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ولاخلاف أنه لا یجوز العمل بمقتضاه إذا کان المرسل له غیر متحرز یرسل عن الثقات وغیرهم. فأما إذا علم من حاله أنه لا یرسل إلا عن الثقات فإن جمهور الفقهاء على العمل بموجبه کإبراهیم النخعي وسعید بن المسیب والحسن البصري والصدر الأول کلهم، وبه قال
Flag Counter