بلا واسطہ کہہ دیتے تھے:’’ قال رسول الله صلی للّٰہ علیہ وسلم کذا ‘‘اور جب ان تک خبر کسی ایک واسطے سے پہنچتی تھی تو وہ اس کی مکمل سند بیان کرتےتھے تاکہ وہ بات کو اپنے ذمہ نہ لیں بلکہ اس کے ذمہ ڈال دیں جس سے انہوں نے سنی ہے۔ [1] قرونِ ثانی اور قرونِ ثالث کی مرسل روایات کو احناف اس وقت قبول کرتے ہیں جب راوی کے بارے میں یہ بات معروف نہ ہو کہ وہ غیرثقہ یا غیر عادل سے روایت کرتا ہے کیونکہ قرونِ ثلاثہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدق و خیرکی گواہی دی ہے لہٰذا اس گواہی کی وجہ سے ان کی عدالت ثابت شدہ ہے جب تک کہ اس کے خلاف کوئی بات نہ ظاہر ہوجائے۔ [2] ۳۔ اگر قرونِ ثلاثہ سے نچلے درجہ کا کوئی راوی مرسل روایت بیان کرے تو احناف کےنزدیک ایسی روایت مقبول نہ ہوگی مگر اس صورت میں کہ جب راوی کے بارے میں یہ بات مشہور و معروف ہو کہ وہ خود بھی ثقہ ہے اور وہ صرف ثقہ لوگوں سے ہی ارسال کرتا ہے، مثلاً امام محمد رحمہ اللہ (متوفیٰ 189ھ) کی مرسل روایات۔ ثقہ سے ارسال کرنے میں مشہور ہونےکی قید اس لیےلگائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قرون ثلاثہ کے بعد جھوٹ و کذب عام ہوجائےگا اور قرون ثلاثہ کے بعد والے زمانوں کےلیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےصدق وخیر کی گواہی بھی نہیں دی۔ لہٰذا جب تک راوی کے بارےمیں یہ اطمینان نہ ہو کہ وہ ہمیشہ ثقہ سے ہی ارسال کرتا ہے ، اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔[3] ۴۔ وہ روایت جس کی ایک سند مرسل ہو اور دوسری سند متصل ہو تو اکثر علمائے احناف ایسی روایت کو قبول کرتے ہیں، جیسا کہ حدیث: ((لا نکاح إلا بولي)) [4] کو اسرائیل بن یونس رحمہ اللہ (متوفیٰ 162ھ) نےمتصل ذکر کیا ہے اور شعبہ رحمہ اللہ (متوفیٰ 193ھ) نے مرسل ذکر کیا ہے، لہٰذا حدیث کا اتصال، ارسال پر غالب ہوگا ۔ ایسی روایت میں ایک قول عدم قبولیت کا ہے کیونکہ حدیث کا اتصال تعدیل کی مانند ہےاور ارسال جرح کی مانند ہے او رجب جرح و تعدیل میں تعارض ہوجائے تو جرح کو ترجیح دی جاتی ہے۔[5] |