Maktaba Wahhabi

114 - 117
کتابوں میں یہ تفصیل مذکور ہے۔ احناف حدیثِ مرسل کی درج ذیل چار قسمیں بناتے ہیں: ۱۔ صحابی کی مرسل دوسرے علماء و فقہاء کی مانند احناف کے نزدیک بھی حجت ہے، کیونکہ صحابی کی روایت میں ایک امکان تو یہ ہے کہ اس نے خود سنی ہوگی اور دوسرا امکان یہ ہے کہ اس نےکسی دوسرے صحابی سے سنی ہوگی اور حدیث بیان کرتے وقت اس کاذکر نہیں کیا۔او ریہ بات اُمت مسلمہ کے نزدیک طے ہےکہ صحابہ سب عادل ہیں، لہٰذا صحابی کی مرسل روایت چاروں ائمہ کے نزدیک حجت ہے۔ [1] یہی قول صحیح ہےکہ صحابی کی مرسل روایت مقبول ہے ، برابر ہے کہ صحابی نے اس بات کی تصریح کی ہو کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتا ہے یاتصریح نہ کی ہو، برابر ہے کہ وہ صحابی ثقہ سے روایت کرنے میں معروف ہو یا نہ ہو۔ اس قول کے صحیح ہونے کےدلائل یہ ہیں: 1۔صحابہ مرسل احادیث بیان کرتے تھے اور اس پرکبھی کسی صحابی نے انکار نہیں کیا کیونکہ اگر کسی نے انکار کیاہوتا تو ہم تک پہنچ جاتا۔ چونکہ ہم تک کوئی ایسا انکارنہیں پہنچا، لہٰذا یہ بات واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ صحابی کی مرسل روایت کے قبول کرنے پر صحابہ کا اتفاق تھا۔ 2۔حضرت ابن عباس اور دوسرے صغار صحابہ مثلاً عبداللہ بن زبیر، جعفر بن ابی طالب، نعمان بن بشیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایت کے قبول کرنے پر امت کا اجماع ہے حالانکہ ان صحابہ کی اکثر روایات مرسل ہیں۔ [2] قاضی ابو یعلیٰ رحمہ اللہ (متوفیٰ 458ھ) کا حضرت ابن عباس کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں: ’’حضرت ابن عباس نے بہت سی احادیث روایت کی ہیں باوجودیکہ بعض حضرات نے کہا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف دس احادیث سنی ہیں اور بعض حضرات نےکہا ہے کہ چار احادیث سنی ہیں۔ حضرت ابن عباس یا کسی اور صحابی سے مروی ہے کہ جوبھی حدیث ہم تم کو بیان کریں ضروری نہیں ہے کہ وہ ہم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔‘‘ [3] ۲۔ قرنِ ثانی اور قرنِ ثالث کی مرسل روایت یعنی کوئی تابعی یا تبع تابعی مرسل روایت ذکر کرے تو حنفیہ کے نزدیک ایسی مرسل روایت بھی حجت ہے بلکہ مسند (متصل) روایت سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ تابعین اور تبع تابعین کی یہ عادت تھی کہ جب وہ کسی حدیث کو کئی مختلف سندوں سے سنتے تھے تو وہ ان سندوں کوذکر کیےبغیر
Flag Counter