’’حدیث مرسل کے قبول کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے او راس کی صورت یہ ہے کہ جب کوئی ایسا عادل راوی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہوئی ہو وہ کہے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وصورته: أن یقول قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من لم یعاصره.‘‘ [1] ’’اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شخص جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو کہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔‘‘ صاحب ابہاج ( تقی الدین ابو الحسن رحمہ اللہ (متوفیٰ 785ھ) مرسل کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’وعند الأصولیین: المرسل قول من لم یلحق النبي صلی للّٰہ علیہ وسلم سواء کان تابعیا أم تابع التابعین فتفسیر الأصولیین أعم من تفسیر المحدثین.‘‘ [2] ’’اصولیین کے نزدیک مرسل اس راوی کی حدیث ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملا ہو ، برابر ہے کہ وہ تابعی ہو یا تبع تابعی ہو۔ اصولیین کی تفسیر محدثین کی تفسیر سے عام ہے۔‘‘ واضح رہے کہ فقہاء کا اختلاف اس حدیثِ مرسل میں ہے جو علما ء اصول کی اصطلاح میں ہے اور اس مبحث میں ہمارا مقصود بھی یہی تعریف ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےنزدیک حدیثِ مرسل کی حجیت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (متوفیٰ150ھ) کے بارے میں عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ وہ مرسل روایت بلاکسی قید کے مطلقاً قبول کرتے ہیں۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإحکام‘‘ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ و امام مالک رحمہ اللہ (متوفیٰ179ھ) اور مشہور روایت کے مطابق احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفیٰ 241ھ) کی طرف منسوب کیا ہے کہ وہ حدیثِ مرسل کو مطلقاً قبول کرتے ہیں[3] اور خود بھی اس قول کو پسند کیا ہے۔علامہ اسنوی رحمہ اللہ (متوفیٰ 772ھ) نےبھی ’’نهایة السؤل‘‘ میں مطلقاً حدیثِ مرسل کے قبول کرنے کو امام ابوحنیفہ ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کی طرف منسوب کیا ہے۔[4] لیکن حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور حنفیہ مطلقاً حدیثِ مرسل کو قبول کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب میں تفصیل ہے جیساکہ احناف کی اصول کی |