تحریر کے چند اقتباسات نقل کیے جارہے ہیں جس سے اس مسئلہ میں آپ کی رائے کا اظہار ہورہا ہے۔ مثلاً کسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سے زوجین مباشرت صحیح طور پر کر ہی نہیں سکتے یا بیوی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی، تو مرد کا نطفہ بذریعہ پچکاری یا انجکشن ( بطریق اول) عورت کے رحم میں داخل کر دیا جائے ۔ یہ صورت جائز اور درست ہے۔ اس سے نہ نسب میں فرق پڑتا ہے اور نہ وراثت کے احکام متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے مندرجہ بالا طریقہ ممکن نہ ہو تو طریقہ نمبر 2(ٹیسٹ ٹیوب والا طریقہ) اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی درست اور جائز ہے بشرطیکہ جرثومے زوجین کے اپنے ہوں۔ ایک مرد کی دو یا دو سے زیادہ بیویاں ہیں جن میں سے ایک بانجھ ہے۔ اس بانجھ عورت کا بیضہ حاصل کر کے ٹیسٹ ٹیوب میں مرد کا نطفہ شامل کر کے کسی تندرست بیوی کے رحم میں یہ نطفہ امشاج رکھ دیا جائے۔ یا اس کے برعکس یعنی اگر بانجھ عورت کے بیضہ یعنی جرثومہ میں نقص ہے تو وہ کسی دوسری بیوی کا لے کر یہی طریق کار استعمال کرتے ہوئے بانجھ عورت کے رحم میں رکھ دیا جائے۔ اس طریق کار میں کچھ قباحت نہیں۔ اس کا نسب تو بہر حال باپ سے ہی چلے گا لیکن وراثت کا تعلق اس ماں سے ہو گا جس نے اسےجنا ہے۔ [1] رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں ’’مجمع فقہ اسلامی‘‘ نےبھی اپنے متعدد اجلاسوں میں غور وفکر کر کے متذکرہ بالا تین صورتوں کےجواز کا میلان دیا ہے۔ [2] اس سلسلے میں مصر کے ’’شیخ الأزهر ورئیس مجمع البحوث الإسلامية ‘‘ شیخ جادالحق علی جادالحق رحمہ اللہ (متوفیٰ 1996ء) بھی جواز کے قائل ہیں ۔ انہوں نے اس ضمن میں ایک مبسوط مقالہ تحریر کیا ہے جو سہ ماہی منہاج میں بھی شائع ہوا ہے۔ [3] حقيقت یہ ہے کہ دین اسلام اپنی تعلیمات کے اعتبار سے بہت ہی اعلی وارفع دین ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پرنسب اور صہر (سسرال) کے احسانات کا تذکرہ قرآن مجید میں فرمایاہے۔نسب وصہر ہی کی بنیاد پر احکامِ حلت وحرمت کو بیان فرمایا ہے اور ان کی قدرومنزلت کو نہایت رفعت وعظمت بخشی ہے۔ اسی احسان خداوندی کی بدولت نسل انسانی کی حفاظت ان ضروری مقاصد میں سے قرار پائی جو اسلامی شریعت کا مقصود ومطلوب ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام غزالی رحمہ اللہ (505ھ) فرماتے ہیں: ’’جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت ،مقاصدِ شریعت میں سے ہیں۔ انہی مقاصد کے حصول میں انسانیت کی بھلائی اور بہبود کا راز مضمرہے۔ مصلحت سے مراد مقاصد شریعت کی حفاظت ہے اور مقاصد پانچ ہیں:دین ،جان ،مال |