Maktaba Wahhabi

102 - 117
شرعی حیثیت اگر چہ مذکورہ طریقہ تولید میں مرد وزن کے نطفوں کا اخراج ، اختلاط اور بار آوری کے بعد کچھ دنوں کے لئے مصنوعی پرورش، پھر واپس رحم میں منتقلی وغیرہ تک کے تمام طریقے غیر فطری یا مصنوعی ہیں۔ مگر بعض مصالح کی غرض سے بسا اوقات غیر فطری اور مصنوعی طریقوں کو اختیار کرنے کی شرعی رخصت موجود ہے، مثلاً زچہ بچہ یا کسی اور مریض کی جان بچانے کے لئے بسا اوقات آپریشن کیا جاتا ہے جو غیر فطری ہونے کے باوجود ایک برتر مصلحت کی غرض سے جائز ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی غیر فطری صورتوں کو اپنانا بسا اوقات انسانی مجبوری بن جاتی ہے۔ اس لیے ایسی مجبوری اور اضطرار کی صورت میں کسی غیر فطری ، مصنوعی اور سائنسی طریق کار کواپنانے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں اولاد کےحصول سے ایک مقصدشریعت یعنی نسل انسانی کی حفاظت کی تکمیل ہوتی ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) مقاصد شریعت کاایک قاعدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’قاعدة الشرع والقدر تحصیل أعلی المصلحتین وإن فات أدناهما، ودفع أعلی المفسدتین وإن وقع أدناهما. ‘‘[1] ’’ شریعت کا مقصوديہ ہےکہ دو مصلحتوں میں سے اعلی مصلحت كو حاصل كيا جائے، خواہ ادنیٰ فوت ہو جائے۔اور اسی طرح دو مفسدوں میں سے اعلی مفسدہ کو رفع کيا جائے خواہ ادنی واقع ہو جائے۔‘‘ مصنوعی تخم ریزی سے متعلقہ سوالات اور کویت کی مجلس افتاء کا جواب سوال: میاں بیوی کے نطفوں میں رحم سے باہر اختلاط کے بعد بار آور نطفہ کو اس شخص کی اسی بیوی کے رحم میں رکھنا کیسا ہے؟ کویت کی مجلس افتاء سے اس نوعیت کے نو سوالات کے بارے استفتاء کیا گیا تھا اس ضمن میں مجلس نے تمام سوالات پر گہرے غورو خوض کے بعد یہ فتویٰ جاری کیا کہ میاں بیوی کے نطفوں میں رحم سے باہر اختلاط کے بعد بارآور نطفہ کو اس شخص کی اسی بیوی کے رحم میں رکھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں۔لیکن اس کے علاوہ استفتاء میں موجود بقیہ صورتوں کو ناجائز اور حرام کیا گیا ۔ [2] عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی رائے مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1995ء) نے ایک مبسوط مقالہ اس موضوع پر تحریرکیا ۔ہے آپ کی
Flag Counter