’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ میں (التنور) سے مراد سطح زمین ہے۔ یعنی نوح کو کہا گیا کہ آپ سطح زمین پر پانی دیکھیں تو آپ اور آ پ کے ساتھی کشتی میں سوار ہوجائیں۔‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’عن علی قوله ﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ قال هو تنویر الصبح.‘‘ [1] ’’ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (التنور) سے مراد صبح کا طلوع ہونا ہے یعنی جب صبح طلوع ہوجائے تو آپ کشتی میں سوار ہوجائیں۔‘‘ امام قتادہ رحمہ اللہ (متوفیٰ117ھ) اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’کنا نحدث أنه أعلی الأرض وأشرفها، وکان علماً بین نوح وبین ربه. ‘‘ ’’ ہم اسے زمین کے بلند مقامات (ٹیلے وغیرہ) قرار دیتے تھے او ریہ سیدنا نوح اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک علامت تھی یعنی جب بلند جگہوں سے پانی اترنا شروع ہوجائے تو آپ سوار ہوجائیں۔‘‘ [2] ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ (التنور) سے روٹیاں پکانے والا گھر کا تنور مراد ہے۔ ’’قال : اذا رأیت تنور أ یخرج منه الماء، فاته هلاك قومك. ‘‘ ’’ جب آپ اپنے اہل کے تنور سے پانی نکلتا دیکھیں، تو یہ تیری قوم کی ہلاکت کا وقت ہوگا۔‘‘ [3] امام بغوی رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ میں لفظ ( التنور) میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ عکرمہ اور زہری کے نزدیک اس سے زمین کا چہرہ (یعنی سطح زمین) مراد ہے۔ حضرت علی کے نزدیک اس سے طلوع فجر اور صبح کا نور مراد ہے۔ حسن بصری (متوفیٰ 110ھ)، مجاہد (متوفیٰ 104ھ)اور شعبی رحمہم اللہ کے نزدیک اس سے روٹیاں پکانے والا حقیقی تنور مراد ہے او راکثر مفسرین کا یہی قول ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ حسن کہتے ہیں کہ یہ پتھر کا تنور تھا جس پراماں حوا، روٹیاں لگایا کرتی تھیں۔پھر وہ حضرت نوح کی طرف منتقل ہوگیا۔‘‘ [4] امام رازی رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ میں دو قول ہیں: |