ہونے کو بیان کرکے ان دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کو نہایت قریب الفہم بنا دیا ہے۔ مثلاً ﴿هُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتّٰى اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَآءَتْهَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ﴾[1] وہی ہے جوتم کو سفر کراتا ہے خشکی اور تری میں، یہاں تک کہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور کشتی ان کو سازگار ہوا کے ذریعہ سے لے کرچلتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں، آتی ہے اس پر ایک بادتند اور موجیں اٹھنے لگتی ہیں ہرطرف سے۔ علاوہ ازیں ﴿ وَ هِيَ تَجْرِيْ بِهِمْ ﴾ (کہ اور وہ ان کو لے چلتی ہے) کے الفاظ کے اندر خود ہوا کا ثبوت موجود ہے کیونکہ قرآن نے دوسری جگہ اس بات کی تصریح کردی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہواکو ٹھہرا دے تو یہ کشتیاں سمندر کی سطح پر کھڑی رہ جائیں۔﴿ وَ مِنْ اٰيٰتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ٭اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰى ظَهْرِهٖ﴾[2] اور اس کی نشانیوں میں سے یہ پہاڑ کے سے جہازات ہیں جوسمندر میں چلتے ہیں۔ اگر خدا چاہے تو ہوا کو روک دے اور یہ سطح پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔ دوسری جگہ فرمایا ہے:﴿ وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ﴾[3] اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ بھیجتا ہے ہواؤں کو بشارت بناکر اور تاکہ تمہیں اپنی رحمت سے شاد کام کرے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قوم نوح پرتند اور چکردار ہوا کا طوفان آیا جس سے سخت بارش ہوئی، پاس کے سمندروں کا پانی ابل پڑااو رہر طرف سے موجیں اچھلنے لگیں۔ اس طوفان کے اندر نوح کا سفینہ کوہ جودی پر جاکے ٹکا۔‘‘ جمہور مفسرین کامؤقف جمہور مفسرین کے نزدیک منشائے متکلم یہ ہے کہ قوم نوح پر سیلاب اور طوفان کا عذاب آیا اور یہ پانی تنور سے پھوٹنے لگا۔ اب تنور کی وضاحت میں مفسرین سے مختلف اقوال ثابت ہیں کہ تنور سے مراد حقیقی روٹیاں پکانے والا تنور ہے یا اس سے سطح زمین مراد ہے یا اس سے بلند مقامات مراد ہیں یااس سے صبح کا پھوٹنا مراد ہے۔ بہرحال جمہور مفسرین میں سے کسی نے بھی منشائے متکلم بیان نہ کیا جو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے ۔ امام طبری رحمہ اللہ قوم نوح پر نزول عذاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’عن ابن عباس أنه قال في قوله﴿ وَ فَارَ التَّنُّوْرُ ﴾ قال: (التنور) وجه الأرض قال: قيل له : إذا رأيت الماء على وجه الأرض فاركب أنت ومن معك.‘‘[4] |