Maktaba Wahhabi

94 - 126
علامہ زمخشری رحمہ اللہ اس سورت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا ابن اُم مکتوم آئے۔ اُم مکتوم ان کی دادی کانام ہے۔ اور ان کا نام عبداللہ بن شریح بن مالک ابن ربیعہ الفہری من بنی عامر بن لؤی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سردار قریش عتبہ، شیبہ ابن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے شاید کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور ان کی وجہ سے دیگر لوگ مسلمان ہوجائیں۔ سیدنا ابن اُم مکتوم نے بار بار یہ کہنا شروع کردیا: ((أقرئنی وعلمنی مما علمك اللّٰه))کہ آپ مجھے پڑھائیں اورجو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھلایا ہے اس میں سے مجھے بھی سکھلائیں۔ ان کونہیں معلوم تھا کہ آپ قوم کے ساتھ مشغول ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے قطع کلامی کرنے کو ناپسند کیا اور تیوری چڑھاتے ہوئے ان سے منہ پھیر لیا۔جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکریم کیا کرتے تھے اور جب بھی انہیں دیکھتے کہتے: ((مرحبا بمن عاتبنی فيه ربی))کہ خوش آمدید ایسے شخص کو جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھے ڈانٹا۔ اور ان سے پوچھتے ((هل من حاجته))کہ کیا کوئی حاجت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کو مدینہ کانگران مقرر کیا۔ سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں جنگ قادسیہ والے دن زرہ پہنے ہوئے دیکھا اور اس وقت ان کے ہاتھ میں سیاہ جھنڈا تھا۔‘‘ [1] امام ابن عطیہ رحمہ اللہ اس سورت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ ’’العبوس ‘‘ کا معنی ہے کسی امر کی ناپسندیدگی کے وقت چہرے پر تیوری چڑھانا اور اس کے خطاب میں غائب کا صیغہ لانا عتاب میں مبالغہ ہے کیونکہ اس میں بھی اعراض کا کچھ شائبہ پایا جاتا ہے۔ متعدد اہل علم، ابن زید اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ یہ فرماتے ہیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کچھ چھپاتے تو ان آیات مبارکہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا و زید کے قصے والی آیات مبارکہ کو ضرور چھپا لیتے۔‘‘ [2] تفسیر سورۃ ذاریات مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے سورہ ذاریات کا ایک عمود (نظم) بنایا ہے اور اس میں اقوام کی تباہی میں ہواؤں کے کردار پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کے نزدیک قوم لوط، قوم نوح اور قوم فرعون پر عذاب ہوا کے ذریعہ آیا تھا۔ وہ قوم لوط پر برسنے والی پتھروں کی بارش کوبھی ہوا کا ہی شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔نیز ان کا مؤقف ہے کہ جب موسی دریائے قلزم پر آئے تو اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ذریعے ہی اس کا سارا پانی خشک کردیا اورموسی پار
Flag Counter