Maktaba Wahhabi

93 - 126
تھے اور اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم آئے اور کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! "أقرئني وعلمنی مما علملك اللّٰه" کہ مجھے پڑھائیں اور جو کچھ آپ کو اللہ نے سکھلایا ہے، مجھے بھی سکھلائیں۔ وہ بار بار یہ کلمات کہہ رہے تھے اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کی طرف متوجہ ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر کچھ ناپسندیدگی ظاہر ہونے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ سردار کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نابینا، غلام اور غیر مہذب لوگ ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیوری چڑھا کر ان سے منہ موڑ لیا او ران سرداروں کے ساتھ گفتگو کرنے لگے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔ ان آیات کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے انتہائی عزت و احترام سے ملتے او رجب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے : ((مرحبا بمن عاتبنی فيه ربي))کہ خوش آمدید ایسے شخص کو، جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھے عتاب کیا۔ اللہ کے نبی ہمیشہ ان سے پوچھتے رہتے۔ ((هل من حاجة))کہ کیا تمہاری کوئی ضرورت تو نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوغزوات کے موقع پر ان کومدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا۔ سیدنا انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے انہیں جنگ قادسیہ کے دن دیکھا کہ انہوں نے سیاہ جھنڈا اٹھایا ہوا تھا اور زرہ پہنی ہوئی تھی۔‘‘ [1] امام رازی رحمہ اللہ اس سورت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم آئے۔ اُم مکتوم آپ کی دادی کا نام ہے اور آپ کا پورا نام عبداللہ بن شریح بن مالک بن ربیعہ الفہری ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کے سرداران عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ شاید وہ مسلمان ہوجائیں۔ ابن ام مکتوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بار بار کہنے لگے ((أقرئنی و علمنی مماعلمك اللّٰه))کہ آپ مجھے پڑھائیں او رجو کچھ اللہ نے تجھے سکھلایا ہے اس میں سے مجھے بھی سکھلائیں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قطع کلامی کرنے کو ناپسند کیا اور تیوری چڑھاتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات مبارکہ نازل فرما دیں۔ ان آيات كى نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکریم کرتے اور جب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے، ((مرحبا بمن عاتبنی فيه ربي))کہ خوش آمدید! ایسے شخص کو، جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھ پرعتاب نازل کیا۔ اور ان سے پوچھتے رہتے تھے: (هل من حاجة) کہ کیاکوئی حاجت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کومدینہ پرنگران مقرر کیا۔‘‘ [2]
Flag Counter