تمام زور منکرین و معاندین پرپڑ رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو اس عتاب کے اندر شفقت والتفات کی نہایت جان نواز ادائیں پنہاں ہیں۔‘‘ لیکن مولانا صاحب کی اس مثال کاحقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس مثال میں چرواہے ہی کو توجہ دلائی جائے گی کیونکہ پورے گلے سے غفلت برتتے ہوئے ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے چلے جانا درست نہیں ہے۔ ایک بھیڑ کوبچاتے ہوئے پورے گلے کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی درست نہیں ہے۔ جمہور مفسرین کا مؤقف جمہور مفسرین کے نزدیک سورہ عبس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم کونظر انداز کرتے ہوئے کفار کو ترجیح دی تھی اس سلسلے میں جمہور مفسرین کی تفاسیر درج ذیل ہیں: ۱۔ امام طبری رحمہ اللہ سورۃ عبس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’وذکر أن الأعمی الذی ذكر اللّٰه في هذه الآية، هو ابن أم مكتوم، عوتب النبى صلی اللّٰه علیہ وسلم بسبه. ‘‘[1] ’’جس نابینا صحابی کاتذکرہ اس آیت مبارکہ میں کیا گیا ہے وہ ابن اُم مکتوم ہیں جن کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعتاب کیا گیا۔‘‘ اس کے بعد امام طبری رحمہ اللہ نے اس سورت کاشان نزول بیان کرتے ہوئے متعدد روایات نقل کی ہیں: ’’سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سورت عبس سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے ’’أرشدنی ‘‘ کہ آپ میری راہنمائی فرمائیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرک سرداربیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن اُم مکتوم سے اعراض کرتے ہوئے ان سرداروں کے ساتھ گفتگو کو ترجیح دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل کردی۔‘‘ [2] مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سیکھنے اور پڑھنے آئے تھے، اور اس سورت مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے اس رویے کی وجہ سے عتاب ہے۔امام بغوی رحمہ اللہ اس سورت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: ’’اس سورت مبارکہ میں نابینا سے مراد سیدنا عبداللہ بن اُم مکتوم ہیں۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارمکہ کے سرداروں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب، ابی بن خلف اور اس کے بھائی اُمیہ بن خلف سے گفتگو کررہے تھے۔ انہیں اللہ کی طرف بلا رہے |