Maktaba Wahhabi

91 - 126
کو اشارہ ہے کہ آپ کی توجہ کے اصل مستحق مومنین ہیں نہ کہ کفار۔ مومنین کا حق مقدم ہے۔سابق سورہ سے اس کا ربط یوں ہے کہ اس کے خاتمہ کی آیت ﴿ اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَا﴾[1] تھی۔ یعنی کہ تمہاری نصیحتوں کو وہی قبول کرسکتے ہیں جو قیامت سے ڈرتے ہیں۔ پس اس سورہ میں یہ بتا دیا کہ پیغمبر ایسے لوگوں سے اصرار و لجاجت کرنے پر مامور نہیں ہے جو قیامت کے خوف سے بے پرواہ ہوچکے ہوں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں باربار دہرایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی رافت و شفقت کے سبب سے، یا جو ش تبلیغ و دعوت میں، کبھی کبھی اصرار و لجاجت پر اتر آتے تھے۔یہاں بھی وہی مضمون ہے۔ قرآن مجید نے تعلیم کوموثر اور دل نشین بنانے کے لئے، نابینا کے مناسب حال واقعہ کو بطور مثال اختیار کرلیا ہے او رپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کوتبلیغ و دعوت میں اصرار کی اس حد سے روکا ہے جو آپ کے منصب کے شایان شان نہیں ہے اور گو کلام کا ظاہر اسلوب تنبیہ و عتاب کا ہے لیکن درحقیقت ان تمام مواقع میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منکرین سے اعراض کا حکم دیا جاتاہے، غصہ و عتاب کا اصلی رخ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے منکرین ہی کی طرف ہوتا ہے اور یہ اتمام دعوت کا ایک نہایت معروف اسلوب ہے جس سے اہل نظر ناواقف نہیں ہوسکتے۔سورہ کی یہ تاویل جو بالا جمال اوپر بیان ہوئی بالکل واضح ہے اور کسی صاحب بصیرت کو اس کے سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوسکتی لیکن بعض مفسرین سے اس کی تاویل میں لغزش ہوگئی ہے جس کو ہم آگے بیان کریں گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ایک فصل میں انبیاء کے خُلق عظیم پر روشنی ڈالیں اور یہ واضح کر دیں کہ کبھی کبھی جو ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بانداز عتاب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس عتاب کا اصلی پہلو کیا ہوتا ہے۔‘‘ مولانا فراہی رحمہ اللہ اپنے اس مؤقف کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال کا سہارا لے کرواضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ عتاب درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ کفار کو ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اس معاملہ کی اصل نوعیت کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور ذمہ دار چرواھا ہے۔ اس کے گلے کی کوئی فربہ بھیڑ گلے سے الگ ہوکر کھو جائے۔ چرواھا اس کی تلاش میں نکلے۔ ہر قدم پر اس کے کھر کے نشانات ملتے جارہے ہیں۔جنگل کے کسی گوشہ سے اس کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے اور اس طرح وہ کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے اور اپنے اصلی گلے سے تھوڑی دیر کے لئے غافل ہوجاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس لوٹتا ہے تو اس کا آقا اس کوملامت کرتاہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔اس کو چھوڑ دیتے، بھیڑیا کھا جاتا وہ اسی کی مستحق تھی۔ بتاؤ اس میں عتاب کس پر ہوا، چرواہے یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ ظاہر ہے کہ کھوئی ہوئی بھیڑ پر، چرواہے اور گلے کی تو اس میں زیادہ سے زیادہ دلداری ہوئی۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کا روئے سخن بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ لیکن خفگی کا
Flag Counter