Maktaba Wahhabi

82 - 126
۱۔ یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ ۲۔ اگر بالفرض اس قول کی صحت تسلیم بھی کرلی جائے تو اس حدیث کو بیان کرنے میں معقل منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ جراح وغیرہ بھی ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہی مذکور ہے۔ ۳۔ اسی طرح کتاب وسنت نے ایسی مطلقہ کے مہر کی نفی کی ہےجسے ہمبستری اور مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دی گئی ہو جبکہ متوفیٰ عنہا زوجہا کے مہر کی نفی نہیں کی اور وفات کے احکام ،طلاق کے احکام سے الگ ہیں۔ [1] حضرت حذیفہ بن یمان کے استدراکات کا تحقیقی جائزہ واقعہ معراج کے حوالے سے ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے تو آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اسے ایک پتھر کے ساتھ باندھ دیا۔ [2] تعارض کی صورت اس کے بارے میں اعتراض کرتے ہوئے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے اِس جانور کو باندھ دیا۔کیوں؟ آپ کو یہ خدشہ تھا کہ بھاگ نہ جائے ۔اسے اللہ نے آپ کے لیے مسخر کیا تھا۔ [3] تعارض کا حل شارح ترمذی نے اس کا جواب یوں نقل فرمایا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ،حذیفہ کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’المثبت مقدم على النافي. ‘‘[4] پھر فرما تے ہیں کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کا کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس نے براق کو باندھنے اور بیت المقدس میں نماز کی ادائیگی کو ثابت کیا ہے اس کے پاس اس سے زیادہ علم ہے جس نے اس کی نفی کی ہے۔ اور بزار کے ہاں بریدہ کی روایت میں ہے کہ جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ، جبریل بیت المقدس کے قریب ایک چٹان کے پاس آئے اور اس پر انگلی رکھ کر اسے پھاڑ دیا پھر براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا۔ [5]
Flag Counter