تعارض کی صورت معترضین کا محل شاہد اس حدیث میں یہ ہے کہ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے چونکہ عمل کی اہمیت گھٹتی ہے جو درایت کے خلاف ہے۔ اس بنا پر حضرت ابوایوب انصاری نے اس روایت کے مسلمہ معلومات دین کے منافی ہونے کی وجہ سے اسے رد کردیا ہے۔ جس سے یہ اصول اخذہوتا ہے کہ ہر وہ روایت جوروایتی طور پر خواہ قطعی الثبوت درجہ ہی کیوں نہ ہو، اگر نقد روایت کے درایتی معیار پر پورا نہیں اترتی تو اسے ہر صورت رد کردینا چاہیے، جیسا کہ ابوایوب انصاری کے عمل سے ثابت ہورہا ہے۔ تعارض کا حل اعتراض کرنے والے کو یہاں اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے تھی کہ اگر کوئی حدیث قرآن کریم کے مطابق ہو لیکن کسی کی رائے اس حدیث کے خلاف ہو تو کیا قرآنی مطابقت کے پیش نظر اسے قبول کیا جائے گا یا کسی کی رائے کی مخالفت کااعتبار کرتے ہوئے اسے ترک کیا جائے گا یا کہ نہیں؟ اس کا جواب ظاہر ہے کہ جو حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،قرآن کریم کے عین مطابق ہو لیکن کسی شخص کی رائے اس حدیث کے خلاف ہو تو رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرلیا جائے گا، کیونکہ اس کی رائے کا تعلق ذاتی رجحان اور ذہنی میلان سے ہے۔ محمود بن ربیع کی بیان کردہ مذکورہ حدیث ’’إن اللّٰہ قد حرم على النار من قال لا إله إلا اللّٰہ یبتغي بذلك وجه اللّٰہ‘‘ اور قرآنی آیت ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ…﴾ [1]میں کوئی تعارض نہیں ہے،کیونکہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی آیت کا مفہوم ومدعا ایک ہی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اہل توحید کے دیگر جرائم اللہ تعالیٰ کی مشیئت میں ہوں گے، چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو ان پر سزا دے کر انہیں جنت میں داخل کردے اور آخر کار ان پر جہنم کی آگ حرام کردے، جبکہ ابو ایوب انصاری کی ذاتی رائے اس کے خلاف جارہی ہے اور محمود بن ربیع کی بیان کردہ حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے تو قرآنی مطابقت کی بنا پر منکرین حدیث کے ہاں بھی یہ حدیث مقبول ہونی چاہئے۔ صرف حضرت ابوایوب انصاری کے ظن کی وجہ سے اسے ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ خاص کر جبکہ حضرت محمود بن ربیع نے راوی حدیث حضرت عتبان بن مالک سے دوبارہ اس کی تحقیق کرکے اس کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ [2] جمع وتطبیق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اگر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ بیان کی ہے تو ساتھ ہی انہوں نے |