Maktaba Wahhabi

79 - 126
اختلاف فقہاء یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس حدیث کی روشنی میں فقہاء کے مابین واقع ہونے والے فقہی اختلاف کو بھی انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کردیں۔ صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کا برتن فروخت کرتے وقت، عوض کے طور پر زیادہ سونا یا چاندی وصول کرلیتا ہے، تو اس بیع کا کیا حکم ہے؟ اس بیع کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے۔ اِمام شافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ شخص برتن کی بنوائی کے عوضانہ کے طور پر سونا یا چاندی وصول کرسکتا ہے اور یہ مثلاً بمثل کے مخالف نہیں، جبکہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اکثر علما بنوائی کے بدلے کچھ زائد سونا لینے کو درست نہیں سمجھتے بلکہ اسے ابو الدرداء کی بیان کردہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی قرار دیتے ہیں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا فقہی موقف اور حدیث کریمہ سے اس کی تطبیق انہوں نے ابوالدرداء کی بیان کردہ حدیث کو صحیح مانتے ہوئے اپنی بیع کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق قرار دیا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے سونے کا برتن بیچنے والا اپنی بنوائی کے عوض کچھ سونا زیادہ لے تو یہ مثلاً بمثل کے منافی نہیں ہے، کیونکہ ابو الدرداء کے الفاظ حدیث ’’نهی عن مثل هذا إلا مثلا بمثل‘‘ کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا : ’’ما أری بمثل هذا بأسا‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی بیع حدیث میں وارد الفاظ مثلاً بمثل کے عین مطابق ہے اور اس کی شکل ممانعت والی بیع سے قطعاً مختلف ہے، کیونکہ اختلاف حدیث کے مصداق کے تعین میں ہے، ناکہ نفسِ حدیث کی قبولیت میں۔ لہٰذا ’اہل درایت‘ کا یہ کہنا کہ معاویہ نے عقل و قیاس کی بنا پر روایت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، ان کی غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لئے کہ حدیث کا انکار کردینا اور حدیث کی روشنی میں اپنے فہم یا فعل پر تصویب کا اظہار کرنا ایک بالکل دوسری شے ہے اور د ونوں باتوں میں بعد المشرقین ہے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے استدراکات کا تحقیقی جائزہ صحیح بخاری میں ہے کہ محمود بن ربیع نے یہ حدیث بیان کی: ’’إن اللّٰہ قد حرم على النار من قال لا إله إلا اللّٰہ یبتغي بذلك وجه اللّٰه ‘‘ حضرت ابوایوب انصاری نے یہ سنا تو فرمایا : ’’واللّٰہ ما أظن رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم قال ما قلتَ قط. ‘‘[1] ’’ بخدا! میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسی بات فرمائی ہوگی۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان کے انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہر مفہوم یہ ہے کہ گناہگار موحدین جہنم میں نہیں جائیں گے حالانکہ یہ بات بہت سی آیات اور مشہور احادیت کے خلاف ہے۔
Flag Counter