تعارض کا حل یہ رویہ علمی اعتبار سے انتہائی مناسب نہیں ہے کہ استدلال کرنے والا کسی واقعہ یا روایت میں سے اپنے مطلب کا حصہ نکال کر اس روایت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بیان کر دے تاکہ اپنی فکر خاص کو وجہ جواز عطا کی جائے۔ لہٰذا ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مکمل متن نقل کریں تاکہ اس سے نتائج واقعہ اور حقائق بیان میں آسانی ہو۔ واقعہ کا سیاق وسباق اگر اس حدیث کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹے بغیر مکمل دیکھ لیا جائے، جیسے یہ اصل کتاب میں ذکر ہوئی ہے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس حدیث کو درایتی نقد کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ، کیونکہ اسی حدیث میں ہی اس کا جواب بھی موجود ہے۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کمی و بیشی کے ساتھ ایسی بیع کرنے سے حکماً منع کردیا تھا۔ مکمل حدیث بمع اپنے الفاظ کے ملاحظہ ہو: عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ بَاعَ سِقَايَةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ بِأَكْثَرَ مِنْ وَزْنِهَا، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : «يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذَا إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ))، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا أَرَى بِمِثْلِ هَذَا بَأْسًا. فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ مُعَاوِيَةَ؟ أَنَا أُخْبِرُهُ عَنْ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وَيُخْبِرُنِي عَنْ رَأْيِهِ، لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ أَنْتَ بِهَا ثُمَّ قَدِمَ أَبُو الدَّرْدَاءِ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى مُعَاوِيَةَ: أَنْ لَا تَبِيعَ ذَلِكَ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ. [1] ’’عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ایک پانی پینے کا برتن جو سونے یا چاندی کا تھا اس کے وزن سے زیادہ سونا یا چاندی لے کر بیچ دیا۔ تو ابوالدردا نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بیع سے منع فرماتے تھے۔ ہاں برابر برابر بیچنا درست کہتے تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری رائے میں اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ابوالدرداء نے کہا اگر میں معاویہ کو اس کا بدلہ دوں تو کون ہے جو میرا عذر قبول کرے۔ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اپنی رائے بیان کرتے ہیں، اب میں ان کے علاقے میں نہیں رہوں گا۔ پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ مدینہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ آئندہ ایسی بیع نہ کرنا، مگر تول کر برابر برابر ہوتو درست ہے۔‘‘ |