Maktaba Wahhabi

75 - 126
جمع وتطبیق بظاہریوں محسوس ہوتا ہے کہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ میں تعارض ہے لیکن جب ہم تمام شواہدِ حدیث کو جمع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کے مواقع ایک مرد کے پاس تین ہیں۔ پہلی دو طلاقوں کے بعد اس کو رجوع کا حق حاصل ہے، جبکہ تیسری طلاق میں حق رجوع باقی نہیں رہتا۔ مزید برآں طلاق رجعی اور طلاق بائنہ میں نفقہ اور سکنی کے احکامات میں بھی فرق ہے، یعنی رجعی طلاق میں سکنی ونفقہ ہے جبکہ طلاق بائن میں نہیں۔ المختصر یہ آیت مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے جس کے لئے خاوند کے ذمہ نفقہ و سکنی لازم ہوتا ہے کیونکہ اس آیت میں ﴿ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْ بُيُوْتِهِنَّ ﴾ انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور یہ بھی فرمایا کہ ’’جب وہ اپنی عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں قاعدہ کے مطابق اپنے نکاح میں رکھو۔ نیز فرمایا: ﴿ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا﴾ ’’شایدکہ اللہ تعالیٰ طلاق کے بعد آپس میں رجوع کرنے کی صورت پیدا فرما دے۔‘‘ ان تمام تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مطلقہ رجعیہ کے بارے میں ہے، جس سے طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع ہوسکتا ہے اور اس کے لئے خاوند کے ذمہ نان نفقہ لازم ہوتا ہے، جبکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مطلقہ ثلاثہ سے متعلق ہے جوخاوند کی زوجیت سے نکل جاتی ہے اور اس کے لئے مرد کے ذمہ کوئی نفقہ اور سکنی نہیں ہوتا۔ چنانچہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کتاب اللہ کے خلاف سمجھنا غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت مشہورہ میں اختلاف اس سلسلہ میں ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے ، جسے ابراہیم رحمہ اللہ(متوفیٰ 96ھ) نے عمر سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ اس روایت کی رو سے ایسی مطلقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکنیٰ ونفقہ دیا ہے جسے اس کا خاوند طلاق بائن دے چکا ہو۔معترضین کا خیال ہے کہ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ جواب یہ دعوی کہ حدیث فاطمہ رضی اللہ عنہا ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے، صحیح نہیں ہے، کیونکہ کوئی ایسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جس کے یہ حدیث خلاف ہو۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (متوفیٰ 751 ھ) فرماتے ہیں: ’’ونحن نقول: قد أعاذ اللّٰه أمیرالمؤمنین من هذا الکلام الباطل الذی لا یصح عنه أبدا قال الإمام أحمد لا یصح ذلك عن عمر. ‘‘[1]
Flag Counter