ہوتے ہیں ۔‘‘ اِمام موصوف رحمہ اللہ کے ہاں حدیث میں وارد ’شوم‘ کے لفظ سے مراد وہ معنیٰ نہیں جو اہل جاہلیت کے ہاں متعارف تھا اور جس کی تردید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کی ہے اور انہوں نے اسے خلاف قرآن کہا ہے، بلکہ’ شوم‘ سے مراد دین دشمنی ہے کہ جس سے بچنا ضروری ہے۔ اور یہ مفہوم قرآن کریم کے موافق ہے، بلکہ حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی حدیث میں ان چیزوں کو دینی خرابی کی قید کے ساتھ ذکر کیا گیاہے، جس سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے جو اِمام بخاری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔ الفاظ حدیث ملاحظہ ہوں: عَن سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : «مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلاثَةٌ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلاثَةٌ، مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ: المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ، وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ، وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ: الْمَرْأَةُ السُّوءُ، وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ، وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ )) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیک عورت ، سازگار گھر اور نرم مزاج سواری انسان کے لئے سعادت اور نیکی کاباعث ہیں لیکن بے دین عورت اور ناموافق گھر اور بدمزاج سواری انسان کے لئے شقاوت اور دینی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘ اِمام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ قرآن کریم میں بعض بیوی بچوں کو انسان کے لئے نقصان دہندہ اور اس کے دشمن کہا گیا ہے اور یہ وہ ہیں جو انسان کے لئے دین کے نقصان اور اس کی خرابی کا سبب بنتے ہیں اور اسے خلاف شریعت کام پر مجبور کردیتے ہیں۔ اسی طرح کسی عورت کے تبرج کی وجہ سے اس کے ساتھ ناجائز تعلق پیدا ہوجائے تو وہ بھی دین خراب کردیتی ہے۔ قرآنی آیت میں ان کے دشمن ہونے کا یہی معنیٰ ہے اور حدیث پاک میں ان کے شوم سے بھی یہی مراد ہے۔ شوم کا معنی منحوس ہونا نہیں ہے جیسا کہ اہل جاہلیت سمجھتے تھے۔ اسی طرح گھوڑا چارہ کھانے والاہو لیکن جہا دمیں کام دینے والا نہ ہو بلکہ فرار اختیار کرنے والا ہو اور گھر کا ماحول برا اور اس کے پڑوسی بددین ہوں تو یہ بھی انسان کے لئے دین کے لحاظ سے نقصان دہ اور دشمن ہیں۔ اور ان کے شوم سے مراد بھی یہی ہے شوم بمعنی نحوست نہیں ہے۔ مثال نمبر5: ’اہل درایت‘کی طرف سے یہ روایت بھی اپنے موقف کے اثبات میں عام طور پر پیش کی جاتی ہے کہ حضرت ابوہریرۃ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے دوزخ میں داخل کردیا کیونکہ وہ نہ اس کو خود کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سن کر کہا: ’’المؤمن أکرم عند اللّٰہ من أن یعذبه في جرء هرة، أما إن المرأة من ذلك کانت کافرة. أبا هریرة! فإذا |