اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (متوفیٰ 852ھ)فرماتے ہیں: ’’محمد بن عمرو اللیثی المدني صدوق له أوهام من السادسة. ‘‘[1] واضح رہے کہ جس راوی کے بارہ میں محدثین صدوق کہیں تو اس کی روایت قابل استدلال نہیں ہوتی، خاص کر جبکہ وہ وہمی بھی ہو اور عیسیٰ بن واقد نیز عبداللہ بن ابی رومان رحمہ اللہ (متوفیٰ 256 ھ) کا تفرد اس پر زیادہ ہے۔ خلاصہ کلام اصول حدیث کی روشنی میں راویان حدیث پر محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف سے کی جانے والی نقدو جرح کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ روایت اس قابل نہیں ہے کہ اس سے استناد کیا جاسکے یا کسی صحیح روایت کے بالمقابل پیش کرکے تعارض احادیث کی لایعنی کوشش کی جاسکے۔ لہٰذا یہ روایت صحیح ثابت ہی نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ہے کہ جو آدمی وتر کی نماز نہ پڑھے اس کی کوئی نماز قبول نہیں اور نہ ہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پر کوئی تنقید کی ہے۔ مثال نمبر4: اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((الطیرة في المرأة والدابة والدار))’نحوست عورت میں، سواری کے جانور میں اور گھر میں ہے۔‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’والذی أنزل الفرقان على أبي القاسم، ما هکذا کان یقول ولکن کان یقول کان أهل الجاهلیة یقولون: الطیرة في المرأة والدابة والدار، ثم قرأت عائشة: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا﴾.‘‘[2] ’’ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کہا تھا، آپ تو اہل جاہلیت کے بارے میں فرماتے تھے کہ وہ یوں کہتے ہیں۔ پھر آپ نے قرآن کی یہ آیت پڑھی:﴿ مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِيْ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا﴾ تعارض کی صورت معترضین کا کہنا یہ ہے کہ جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نحوست کے بارے میں یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں یعنی عورت، سواری اور گھر میں نحوست رکھی ہے تو ان کے جواب میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے |