Maktaba Wahhabi

69 - 126
یوں ہے: ’’قال الطبراني في الأوسط: حدثنا علي بن سعید الرازی ثنا عبداللّٰہ بن أبي رومان الاسکندراني ثنا عیسیٰ بن واقدنا محمد بن عمرو عن أبی سلمة عن أبي هریرة أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: من لم یوتر فلا صلوٰة له فبلغ ذلك عائشة فقالت: من سمع هٰذا من أبي القاسم صلی اللّٰه علیہ وسلم مابعد العهد وما نسینا إنما قال أبوالقاسم صلی اللّٰه علیہ وسلم : من جاء بصلوات الخمس یوم القیمة حافظ علي وضوءها ومواقیتها ورکوعها وسجودها لم ینتقص منهن شیئا کان له عند اللّٰہ عهد ألا یعذبه ومن جاء وقد انقص منهن عذبه ثم قال لم یروه عن محمد بن عمرو الا عیسى،تفردبه عبداللّٰہ بن أبي رومان.‘‘ [1] اس روایت کی سند میں دو راوی علی بن سعید (متوفیٰ 299 ھ) اور محمد بن عمرو (متوفیٰ 145 ھ) ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں۔ہم ان دونوں رواۃ کے بارے میں ائمہ کا تبصرہ ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں: علی بن سعید اِمام دارقطنی رحمہ اللہ (متوفیٰ 385 ھ) فرماتے ہیں: ’’لیس بذاك تفرد بأشیاء.‘‘ یعنی یہ حدیث قوی نہیں ہے اور دیگر بہت سی روایات میں منفرد ہے، اس روایت کی دیگر روایات سے متابعت بھی نہیں ہوتی۔ حمزہ بن یوسف رحمہ اللہ (متوفیٰ 427 ھ)کہتے ہیں: ’’سألت الدارقطني عنه فقال: لیس في حدیثه بذاك.‘‘ یعنی میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ سے علی بن سعید رحمہ اللہ (متوفیٰ 299 ھ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی بیان کردہ حدیث قبول کی جائے۔نیز فرمایا: ’’وقد تکلم فیه أصحابنا بمصر وأشار بیده وقال هو کذا وکذا ونفض بیده یقول: لیس بثقة.‘‘ [2] یعنی’’ مصر میں محدثین کرام رحمہم اللہ نے اسے متکلم فیہ کہا ہے اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے فرمایا کہ یہ راوی ایسا ویسا ہے اور حدیث بیان کرنے میں ثقہ نہیں ہے بلکہ غیر معتبر راوی ہے۔ ‘‘ محمد بن عمرو دوسرا غیر معتبر راوی اس میں ’’محمد بن عمرو رحمہ اللہ (متوفیٰ 145 ھ)‘‘ ہے، جس کے متعلق یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (متوفیٰ 233 ھ)کہتے ہیں: ’’مازال الناس یتقون حدیثه‘‘ یعنی ’’لوگ اس کی حدیث قبول کرنے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے ہیں۔‘‘ [3]
Flag Counter