Maktaba Wahhabi

68 - 126
آنکھیں کھول کر ان اجتہادات پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے جن میں خود از روئے قرآن گدھے کی حرمت ثابت ہورہی ہے۔ بنا بریں تعارض قرآن وحدیث کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ مثال نمبر3: اِستدراک عائشہ علی الصحابہ کے سلسلہ میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ جو آدمی وتر کی نماز نہ پڑھے تو اس کی کوئی نماز قبول نہیں، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو آدمی پانچ فرض نمازوں کی تمام شرائط کے ساتھ پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے۔ تعارض کی صورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک سے اعتراض کا پہلو یہ نکلتا ہے کہ جب ان کے سامنے ایک ایسی روایت بیان کی گئی جو اپنے مضمون کے اعتبار سے دوسری صریح روایت کے خلاف تھی تو انہوں نے اس حدیث کو یہ کہتے ہوئے رد فرمادیا کہ جب ایک عام مسلمان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئی ہیں اور ان میں وترکی فرضیت کا تذکرہ نہیں آتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کی جملہ فرضی عبادات صرف اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں ناقابل قبول قرار پائیں کہ اس نے غیر فرضی نماز کو ادا کرنے میں سستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ معترضین کا محل استدلال یہ ہے کہ اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی واقعہ کو نقدروایت میں درایتی نقد کی بنیاد پر رد کردینا چاہیے، خواہ یہ حدیث روایتاً صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ تعارض کا حل حدیث پر اعتراض کرنے والوں کا زیادہ تر انحصار چونکہ عقل پر ہوتا ہے اور وہ تحقیق میں اترنے سے گریز اختیار کرتے ہیں اور انہیں اس بات سے کوئی سرو کار نہیں ہوتا کہ حدیث کا پایہ معیار اصول ِروایت کی رو سے کس قسم کا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی حدیث روایتاً صحیح بھی ہو تو ان کے مقرر کردہ اصول ِدرایت کی بنا پر ضعیف قرار پا سکتی ہے۔ درج بالا روایت میں بھی انہوں نے تحقیق سند کے معیار کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے درایتی اصول کی بنیاد پر تعارض ِاحادیث کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اصول تحقیق کی روشنی میں اگر اس روایت کو پرکھا جائے تو یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہوسکی۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اَئمہ جرح وتعدیل کے اقوال کی روشنی میں اس کی سند کے رواۃ کے احوال کا جائزہ یہاں پیش کردیں ۔ روایت مذکورہ کی اسنادی حیثیت ’اہل درایت‘نے جس روایت کو اپنے دعوائے درایت کے اثبات کے لیے بنیاد بنایاہے وہ روایت ہی صحیح نہیں۔ ہم اس روایت کو بمع سند مکمل نقل کریں گے اور پھر اس کے ضعف کی وضاحت کریں گے۔ روایت بمع سند کچھ
Flag Counter