کریمہ سے گھوڑوں کے گوشت کے ممانعت پر استدلال کرتے ہیں اس میں گدھوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ ابن ہمام رحمہ اللہ (متوفیٰ 861 ھ) ’’لحم خیل‘‘ کی کراہت پراِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ولأبي حنیفة قوله تعالى ﴿ وَّ الْخَيْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِيْنَةً ﴾[1] خرج مخرج الامتنان ، والأ کل من أعلى منا فعها والحکیم لا یترك الامتنان بأعلى النعم ویمتن بأدناها. ‘‘[2] ’’گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت پر اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو تمہاری سواری اور زینت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا احسان جتلایاہے، اگر گھوڑے کا گوشت کھانا جائز ہوتا تو کھانے کا فائدہ تو گھوڑے کے باقی تمام فوائد سے بڑھ کر ہے اسے اس آیت میں ذکر کیا جاتا، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ جیسا حکیم کھانے کی اعلیٰ نعمت کو چھوڑ کر اس کے ادنیٰ فائدوں کے ساتھ احسان جتلائے۔‘‘ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا استدلال مذکورہ آیت سے اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا وجہ استدلال یہ ہے کہ اِمام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑا ’’مأکول اللحم‘‘ جانوروں میں سے نہیں ہے، کیونکہ اگر اس کا گوشت کھانا مباح اور حلال ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس پر سواری اور اس کی زینت کے ساتھ اسے کھانے کو بھی بطور احسان ذکر فرماتے حالانکہ ایسا نہیں ہوا، لہٰذا اِمام صاحب کے نزدیک گھوڑا ’’غیر مأکول اللحم‘‘ جانور ہے۔ قرآنی آیت اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تطبیق گھوڑے کے ساتھ اس سابقہ آیت میں گدھوں اور خچروں کا ذکر بھی ہے۔ بنابریں جب سورۃ نحل کی آیت کریمہ کے پیش نظر اِمام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑا حلال نہ ہوا تو گدھے اور خچر کا گوشت بھی حلال نہیں ہے، کہ جن کا ذکر آیت میں ہے اور گدھوں کے گوشت کی ممانعت پر مشتمل حدیث مبارک بھی قرآن کریم کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہوگی۔ خلاصہ کلام ہماری مذکورہ بالا طویل بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گدھوں کی حرمت کا مسئلہ کوئی ایسا مختلف فیہ مسئلہ نہیں ہے جس کے بارے میں امت میں دو رائے پائی جاتی ہوں ، بلکہ یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے جس پر امت کا اجماع ہے اور جو متجددین قرآن وحدیث کے باہمی تعارض کو باور کروانے کے لیے بعض فقہاء پر تکیہ کرتے ہیں، انہیں |