Maktaba Wahhabi

63 - 126
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باوجودیکہ اخذ حدیث اور عمل حدیث میں پوری امت پر فائز ہیں اور قبول حدیث میں یہ درایتی معیار قائم کررہے ہیں، حالانکہ یہ دور بھی وہ ہے جس میں ابھی وضع حدیث کا فتنہ بھی موجود نہ تھا تو ہم نقد روایت میں اس درایتی معیار کو کیونکر بنیاد نہیں بنا سکتے جبکہ بُعدِ زمانہ کی وجہ سے فتنہ وضع حدیث کی بناپر مجموعہ احادیث میں بے شمار رطب ویابس جمع ہوگیا ہے۔ جواب ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں کو یہ حکم ارشاد فرمایا تھا کہ نواقض وضو میں سے ایک ناقض آگ پر پکی ہوئی چیز کا کھانا بھی ہے۔ لہٰذا جو باوضو شخص آگ پر پکی ہوئی چیز کو کھائے گا تو اس کو دوبارہ وضو کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایک عرصہ تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسی حدیث پر عمل رہا اور وہ جب بھی آگ پر پکی ہوئی چیز کو کھاتے تو بعد میں نماز وغیرہ کے لیے نیا وضو بنا لیا کرتے تھے جیسا کہ بعض روایات میں اسکی طرف اشارہ ملتا ہے۔ [1] حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی منسوخیت لیکن بعد میں دیگر کئی اسلامی احکام کی طرح کسی خاص مصلحت کی بنیاد پر اس ابتدائی حکم کو بھی منسوخ کر دیا گیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ سے اس بات پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ اب وہ پرانا حکم باقی نہیں رہا اور منسوخ ہوچکا ہے اور اس کی جگہ ایک نئے حکم نے لے لی ہے کہ آج کے بعد آگ پر پکی چیز کے کھانے سے وضو نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ سنن ابی داؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: ((كَانَ آخِرَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتِ النَّارُ)) [2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل یہ تھا کہ آپ آگ سے پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘ مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹنے والی حدیث منسوخ ہے، جو قابل عمل نہیں رہی۔ لہٰذا منسوخ حدیث کو خلاف قرآن کہیں یا خلاف عقل اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ اب وہ شریعت اسلامی کا حکم ہی نہیں رہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی لاعلمی اور رجوع یہ بات تو معروف ہے کہ اس دور میں ابلاغ عامہ کا کوئی خاطر خواہ انتظام موجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ ابتدائی
Flag Counter