ایام میں بے شمار احادیث لا تعداد اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ پائیں یا انہوں نے بذات خود اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سماعت نہ کیا کہ جس سے سابقہ حکم کے منسوخ ہونے کا پتہ ملتا۔ بالکل یہی صورت حال حضرت ابوہریرہ کو بھی پیش آگئی کہ انہیں ناسخ حدیث کا علم نہ ہوسکا یا وہ براہ راست اس کی سماعت نہ کرسکے۔ لیکن بعد ازاں جونہی ان کو سابقہ حکم کے نسخ کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً اپنے موقف سے رجوع فرمالیا تھا۔ مزید ابوہریرہ خود ((ترك الوضوء مما مست النار))کی حدیث کو روایت کرتے رہے، جیسا کہ مجمع الزوائد میں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: ((نَشَلْتُ لِرَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم كَتِفًا مِنْ قِدْرِ الْعَبَّاسِ، فَأَكَلَهَا وَقَامَ يُصَلِّي وَلَمْ يَتَوَضَّأْ)). رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. [1] ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ہنڈیا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شانے کا گوشت نکال کر پیش کیا۔ آپ نے کھایا اور وضو کئے بغیر نماز کے لئے اٹھ گئے، اسے ابویعلی رحمہ اللہ نے روایت کیاہے اور اسے ابوسلمہ سے محمد بن عمر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔‘‘ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے: ((اَنَّ رَسُولَ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم تَوَضَّأَ مِنْ أَثْوَارِ أَقِطٍ، ثُمَّ أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ)) رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَهُوَ فِي الصَّحِيحِ [2] ’’حضرت ابوہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پنیر کا قطعہ تناول کرکے وضو کیا پھر اس سے کچھ دیر بعد آپ نے بکری کے شانے کا گوشت کھایا اور بغیر وضو کئے نماز ادا فرمائی۔‘‘ عقل کی بنا پر ردِ حدیث کے سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رویہ اگر ہم مندرجہ بالا حدیث پر غور کریں کہ جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان فرمائی تو اس وقت ابن عباس کا رد عمل کیا تھا اور ان کے جواب میں خود راوی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کیا بات ارشاد فرمائی ہے، تو اس سے یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے کلام میں قبول حدیث کے ایک جامع اور سنہری اصول کی طرف اشارہ فرمادیا کہ جب کوئی حدیث ثبوت سند کے اعتبار سے انتہائی معیار کی ہو توعقل محض اور قرآن کریم وغیرہ کے نام پر اس کا انکار کردینا تمام صحابہ کے منہج کے خلاف ہے ۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج یہ ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس سے انحراف کریں اور خود مفسر قرآن ہوتے ہوئے بھی دین کے اس عمومی مزاج کو نہ سمجھ سکیں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبول ورد کی بنیاد عقل انسانی قطعاً نہیں بن سکتی۔ یہ بات |