Maktaba Wahhabi

62 - 126
ایسا رونا جب جائز ہے تو عذاب کیوں ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ دیا کہ اس ’رونے‘ سے مراد نوحہ والا رونا ہے جس میں بال اکھاڑے جائیں، سر پر ہاتھ مارے جائیں ، سینہ کوبی کی جائے، بے صبری کے کلمات کہے جائیں، واویلا اور چیخ و پکار کی جائے۔ یعنی ہر رونے پر عذاب نہیں ہوتا بلکہ رونے کی بعض صورتوں میں عذاب ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أهله علیه )) [1] ’’میت کو زندوں کے بعض قسم کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔‘‘ المختصر مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں دیکھئے کہ اس طرح تمام دلائل جمع ہوجاتے ہیں اور کسی دلیل کا ترک لازم نہیں آتا، جبکہ قرآن اور حدیث کے باہمی ٹکراؤ کے طرزعمل سے دلائل میں عجیب انتشار اور خلفشار واقع ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان پریشان ہو کر صحت ثبوت کے باوجود بعض دلائل کو منسوخ یا مرجوح قرار دے کر انہیں چھوڑ دینے کی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے استدراکات کی بعض امثلہ اور ان کا جائزہ مثال نمبر1: جامع ترمذی میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو خلاف عقل ہونے کی بناء پر قبول نہ کیا اور فرمایا: أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الدُّهْنِ؟ أَنَتَوَضَّأُ مِنَ الحَمِيمِ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: ((يَا ابْنَ أَخِي، إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فَلَا تَضْرِبْ لَهُ مَثَلًا))[2] ’’کیا ہم چکناہٹ سے وضو کریں؟ کیا ہم گرم پانی کے استعمال سے وضو کریں؟اس پر حضرت ابوہریرہ نے کہا جب تمہارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی جائے تو باتیں نہ بنایا کرو۔‘‘ اعتراض حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث پر ابن عباس کے اِستدراک سے متجددین نے اپنے درایتی معیار کی دلیل تراشتے ہوئے کہا ہے کہ جب ابوہریرۃ نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنے سے متعلق حدیثِ رسول کو بیان فرمایا تو ابن عباس نے اس کو خلاف قیاس قرار دیتے ہوئے رد کردیا۔ اس سے یہ اصول خود بخود اخذ ہورہا ہے کہ جب کوئی حدیث عقل وقیاس کے خلاف ہو تو اسے بلا تامل رد کردینا چاہیے۔ جب
Flag Counter