Maktaba Wahhabi

61 - 126
کا انکار کیا۔ اگر بات رد و انکا ر کی ہوتی تو پس منظر میں جاکر اس حدیث کا شانِ ورود بیان کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی اور یہ انکار اور رد تو ویسے بھی ممکن تھا۔ المختصر اس روایت کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث کو نہ تو خلاف قرآن کہا ہے اور نہ ہی اسے درایت کے منافی سمجھ کر رد کیاہے بلکہ انہوں نے اس شخص کو غلطی اور نسیان کی طرف منسوب کیا ہے جو اس سے یہ سمجھتا ہے کہ مرنے والے کو اس کے رشتے داروں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، اگرچہ میت کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ اور اس مفہوم کو وہ قرآنی آیت ﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾[1] کے خلاف سمجھتی ہیں، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس عبداللہ بن عمر کی یہ حدیث پیش ہوئی: ((إن المیت یعذب ببعض بکاء أهله علیه))یعنی ’’مرنے والے کو اس کے رشتے داروں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے‘‘ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وَهِلَ تعنی ابن عمر إنما مرالنبی صلی اللّٰه علیہ وسلم على قبر فقال ان صاحب هذا لیعذاب وأهله یبکون علیه ثم قرأت،﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾[2] ’’انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر بھول گئے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تو فرمایا اسے عذاب ہورہا ہے اور اس کے رشتے دار اس پر رو رہے ہیں اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی:﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾[3] یعنی ’’کوئی شخص دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ دیکھئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے راوی حدیث کی واقعہ فہمی کی غلطی پرمواخذہ کیا ہے، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد نہیں کیا اور انہوں نے مفہوم حدیث کی اصلاح کی خاطر قرآنی آیت کو پیش کیا ہے، حدیث نبوی کو رد کرنے کے لئے نہیں، جیسا کہ عام سمجھا جاتاہے۔ نوٹ: حدیث میں آتا ہے:((إن المیت یعذب ببعض بکاء أهله علیه))، اس پر اعتراض لازم آتا ہے کہ میت پر رونا تو آہی جاتا ہے، جیساکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ غشی کی حالت میں ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے اور آپ کو دیکھ کر دیگر لوگ بھی رونے لگے۔‘‘ [4]
Flag Counter