Maktaba Wahhabi

60 - 126
والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ (متوفیٰ 1329ھ)فرماتے ہیں: ’’إنکار عائشة لعدم بلوغ الخبر لها من وجه أخر فحملت الخبر على الخبر المعلوم عندها بواسطة ماظهر لها من استبعاد ان یعذب أحد بذنب أخروقد قال تعالیٰ ولا تزروازرة وزرأخریٰ، لکن الحدیث ثابت بوجوه کثیرة.‘‘ [1] ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا انکار صرف اس لئے ہے کہ انہیں دوسرے طریق سے یہ حدیث نہیں پہنچی، لہٰذا انہوں نے اس حدیث کو اپنے ہاں معلوم حدیث پر قیاس کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ میت کو دوسروں کے جرم کی بناء پر عذاب نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کوئی جان دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گی، حالانکہ حضرت عمر اور ابن عمر کی حدیث بھی بہت سی اسانید سے مروی اور صحیح ثابت ہے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اِستدراک مومن اورکافر کے مابین تفریق کی جہت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روایت عمر کے بارے میں انہوں نے فرمایا تھاکہ یہ حدیث مومن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کافر کے بار ے میں ہے۔ پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مومن کے بارے میں بیان کرنے سے اگر یہ روایت ﴿ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾[2]کے خلاف ہوجاتی ہے تو یہی حدیث کافر کے بارے میں بیان کرنے سے آخر اس آیت قرآنی کے خلاف کیوں نہیں ہوتی؟ حالانکہ نفس مسئلہ اور محل مسئلہ ایک ہی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے عمل کا مکلف نہیں ہے کہ اس کو عذاب میں مبتلاکیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی نامہ اعمال بند کردیا جاتا ہے ۔اگر مومن کے اعمال اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہوگئے ہیں تو کافر کے اعمال کیا جاری رہتے ہیں؟ ہماری دانست کے مطابق قرآن وحدیث کے تعارض کا جواشکال یا اعتراض حدیث عمر پر وارد ہوتا ہے، بالکل وہی اعتراض یا اشکال اِستدراک عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی وارد ہوتا ہے کیونکہ اصل مسئلہ اعمال کی منتقلی کا ہے، ناکہ کافر اور مومن کے فرق کا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اِستدراک کا مقصد قرآن کا حدیث کے ساتھ تعارض کو بیان کرنا قطعاً نہیں تھا بلکہ ان کا مقصود اس خرابی کی ظاہر ی صورت کی طرف اشارہ کرنا تھا جو ایک عام مسلمان کے ذہن میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سننے کے فوراً بعد، آیت قرآنی کے تعارض کے سلسلے میں پیدا ہو سکتی تھی۔ حدیث اپنی جگہ مسلّم ہے جس کا قرآن سے کوئی تعارض نہیں ہے، لیکن اس حدیث کے بیان میں جمع وتطبیق کی تمام ممکنہ صورتیں بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے تاکہ معترضین کے اشکال کا جواب دیا جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نہ تو اختلاف فہم کی بنیاد پرحدیث کو رد کیا اور نہ ہی آیت قرآنی کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس
Flag Counter